بلاول بھٹو زرداری کا دورۂ منصورہ – حامد ریاض ڈوگر

758

وہ جس مقصد کے لیے آئے تھے اُس میں تو انہیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی، تاہم فریقین میں اس امر پر اتفاق پایا گیا کہ انتخابی نظام کو شفاف بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات ضروری ہیں، جن کے لیے قومی سطح پر مذاکرات اور باہم گفت و شنید کا ڈول ڈالا جانا چاہیے، اسی طرح احتساب کا نظام بھی ایسا ہونا چاہیے کہ اس کے یک طرفہ ہونے کا تاثر نمایاں نہ ہو، بلکہ سیاست دانوں، ججوں، بیوروکریسی اور جرنیلوں سمیت سب کو جواب دہ ہونا چاہیے۔ فریقین نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے سیاست دانوں اور دیگر متعلقین کے ایک مضبوط مؤقف کے ساتھ قومی منصوبۂ عمل کی تیاری پر بھی اتفاق کیا، اسی طرح جوانب اس امر پر بھی متفق پائے گئے کہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے سبب مہنگائی اور بے روزگاری کا جو طوفان آیا ہے اس نے ملک کے متوسط اور غریب طبقے کو بے حال کردیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے جب سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا منصب سنبھالا ہے اُن کا ملک کی منظم اور مؤثر جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کا یہ پہلا دورہ تھا، تاہم ان کے والد آصف علی زرداری قبل ازیں دو دفعہ منصورہ آچکے ہیں۔ بلال بھٹو زرداری سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، سابق وفاقی وزراء و دیگر رہنمائوں قمرالزمان کائرہ، فیصل کریم کنڈی، نیر بخاری، سعید غنی، حسن مرتضیٰ اور دوسرے قائدین پر مشتمل اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ منصورہ پہنچے تو امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے مہمان خانہ ’’دارالضیافہ‘‘ کے دروازے پر ان کا خیرمقدم کیا۔ جماعت کے قیم امیر العظیم، نائب امراء لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، اظہر اقبال حسن، محمد اصغر، قیصر شریف اور دیگر قائدین بھی اس موقع پر امیر جماعت کے ہمراہ تھے۔ ’’دارالضیافہ‘‘ میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے امیر جماعت کی والدہ کی وفات پر اظہارِ تعزیت کیا، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنمائوں عبدالغفار عزیز اور حافظ سلمان بٹ کے لیے دعائے مغفرت بھی کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلال بھٹو زرداری نے جماعت اسلامی کے ملک کی منظم ترین جماعت ہونے اور ہر سطح پر جماعت کی تنظیم کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے پی ڈی ایم میں شمولیت کی دعوت دی، اور توقع ظاہر کی کہ جماعت کی شمولیت سے یہ تحریک زیادہ بہتر انداز میں منظم ہوکر آگے بڑھ سکے گی۔ انہوں نے ماضی میں انتخابی اصلاحات کے لیے جماعت کی کاوشوں کو سراہا، اور تجویز دی کہ جماعت اس اہم مسئلے پر کُل جماعتی کانفرنس بلائے تو ہم اس کی تائید و حمایت کریں گے۔ انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ نظام کو بہر صورت چلتے رہنا چاہیے، اسے ڈی ریل کرنے کی کوششیں مناسب نہیں ہوں گی۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنے مؤقف کو دہرایا کہ ایوان میں حزبِ اختلاف کی جس جماعت کی اکثریت ہو، قائدِ حزبِ اختلاف بھی اسی جماعت کا ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے اصولی طور پر اُن کی باتوں سے اتفاق کیا، تاہم کسی قسم کی حتمی یقین دہانی سے گریز کیا گیا، جس کا ایک اہم سبب شاید یہ بھی رہا ہو کہ جماعت کے دستور، طریق کار اور ماضی کی روایات کے مطابق اہمیت کے حامل فیصلے جماعت کی مرکزی مجالسِ عاملہ اور شوریٰ ہی میں کیے جاتے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے وزیراعظم کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کے استعفے کے مطالبے کو آمرانہ اور غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے کہ حکومت نے ہی الیکشن کمیشن کو نااہل قرار دے دیا ہو۔ جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ آئندہ الیکشن سے قبل انتخابی اصلاحات ہونی چاہئیں، احتساب کا موجودہ ادارہ خود قابلِ احتساب ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا اور مودی کے 5 اگست 2019ء کے کشمیر کے اسٹیٹس کو ختم کرنے کے ظالمانہ اقدام کے بعد ایک کمزور مؤقف اپنایا۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اس شہ رگ کو بچانے اور مودی حکومت کے ناپاک ارادوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کو مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں اپوزیشن اور حکومت کی تفریق مٹاکر کشمیر کاز کے لیے اکٹھی ہوں۔ بلاول بھٹو زرداری نے امیر جماعت سراج الحق کی تجاویزسے اتفاق کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی جمہوری خدمات کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی انتخابی اصلاحات کے لیے تاریخی کردار ادا کرسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی جماعت کی کاوشوں کا ساتھ دے گی۔ پیپلز پارٹی جماعت اسلامی کے اس مؤقف کی بھی حامی ہے کہ احتساب سب کا ہو، احتساب کا موجودہ ادارہ ایک آمر کی پیداوار ہے جس سے بے لاگ احتساب کی توقع نہیں۔ بلاول بھٹو نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی قومی امور پر مشترکہ جدوجہد کریں، ہم یہ چاہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی تاریخ اور تجربے سے فائدہ اٹھائیں اور قوم کو ایک مثبت پیغام دیں کہ سیاسی جماعتیں نظریاتی اختلافات کے باوجود قومی مسائل پر بات چیت کر سکتی ہیں۔

فریقین کے مابین ایک خوشگوار ملاقات کے بعد بلاول زرداری اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اپنے اپنے وفود کے ارکان کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو بھی کی، جس کے دوران جناب سراج الحق نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ انتخابی کمیشن اور عدالتِ عظمیٰ اس کے تابع ہوں اور اس کی مرضی کے مطابق فیصلے کریں، ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ قومی اداروں کو قابو میں رکھنے کی سوچ آمرانہ ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو ہرلحاظ سے آزاد اور خود مختارہونا چاہیے تاکہ ملک میںغیر جانب دارانہ، آزادانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کا شکریہ ادا کیا کہ وہ منصورہ تشریف لائے،جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ سیاست مکالمے، دلیل، صبر و تحمل اور باہمی مشاورت کا نام ہے، پاکستان ہم سب کا ہے اور ایک خوش حال پاکستان ہم سب کی ضرورت ہے، ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کی خاطر انتخابی اصلاحات لازم ہیں، احتساب کے ادارے کو بھی ہر حکومت نے اپنے مقاصد اور مرضی کی خاطر استعمال کیا ہے، موجودہ حکومت نے مسئلہ کشمیر پر بھی نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے اور ملک کی شہ رگ کے تحفظ کے لیے ایک بار بھی مؤثر آواز بلند نہیں کی۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ جماعت اسلامی کا نظریہ اور پی پی پی کا نظریہ الگ ہوسکتا ہے، لیکن انتخابی اصلاحات اور مسئلہ کشمیر پر ہمارا مؤقف ایک ہے، ہم سب بیٹھ کر کشمیر کے عوام کے لیے ہاتھ میں ہاتھ دے سکتے ہیں۔ حکومت منافقت کررہی ہے، عمران خان ایک دن مودی کو ہٹلر کہتے ہیں، دوسرے دن مذاکرات کی بات کرتے ہیں، اس حکومت نے کشمیر پر کوئی اجلاس نہیں بلایا، کوئی مشاورت نہیں کی۔ پی ڈی ایم کی اندرونی سیاست پر انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ ملتوی نہیں ہونا چاہیے تھا، پیپلز پارٹی نے اس کے لیے بھرپور تیاریاں کررکھی تھیں، ہمارے کمرے اسلام آباد میں بک ہوچکے تھے، کس نے کہا تھا استعفوں کو لانگ مارچ سے نتھی کریں؟ نیب ایک آمر نے بنایا جو صرف اپوزیشن کے خلاف کام کرتا ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ یک طرفہ احتساب کے نتیجے میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے، معاشی بحران ایک بڑا سنگین مسئلہ ہے جس نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔

صحافیوں کے سوالات کے جواب میں انہوں نے پی ڈی ایم میں اپنی حلیف مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور اُن کی جانب سے تحریک انصاف کے بعد پیپلز پارٹی کو دوسرا سلیکٹڈ قرار دیے جانے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سلیکٹڈ ہونا ہماری رگوں میں شامل نہیں، البتہ لاہور کے ایک خاندان کی بار بار سلیکٹ ہونے کی تاریخ ضرور موجود ہے، ہم تو سلیکٹڈ کے آگے فل اسٹاپ لگانا چاہتے ہیں۔ طعنے کی حد تک تو جناب بلاول بھٹو زرداری کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ شریف خاندان نے سلیکٹروں کی نوازشات ہی کے نتیجے میں سیاست میں قدم رکھا، اور انہی کی مہربانیوں کے سبب بار بار اقتدار کی غلام گردشیں ان کا مقدر بنیں، تاہم جناب بلاول بھٹو زرداری اگر برا نہ منائیں تو ہم انہیں مشورہ دیں گے کہ وہ تاریخ کے اُن اوراق کا مطالعہ بھی کریں جن پر اُن کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار کا قصہ درج ہے، جن کے جانشین ہونے کے وہ دعویدار ہیں کہ کس طرح وہ ملک کے پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی سلیکشن کے باعث ان کی کابینہ میں شامل ہوئے، اور وہ کس طرح ’’ڈیڈی‘‘ کہہ کر ایوب خان کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا کرتے تھے، اور پھر دوسرے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان، جن کے اقتدار میں سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ قوم کو دیکھنا پڑا، ان کی کابینہ میں بھی جناب بھٹو بیک وقت نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے مناسب پر براجمان رہے۔ آخر میں اس پس منظر میں جناب بلاول بھٹو زرداری سے صرف اتنی سی گزارش ہے کہ ؎

اتنی نہ بڑھا، پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ

(This article was first published in Friday Special)