کہا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم میدان میں آگئی ہے۔ لیکن یہ تو سب جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کبھی میدان میں نہیں آئی بلکہ ہمیشہ لائی گئی ہے۔ اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ 1985ء میں جماعت اسلامی کی رفتار تیز تھی۔ بین الاقوامی اور مسلم امہ کے مسائل کے ساتھ ساتھ کراچی کے اہم ایشوز پر بھی جماعت اسلامی کی گرفت تھی۔ بشریٰ زیدی کیس ہو یا کراچی کے پانی کے مسائل اور سڑکوں کا مسئلہ یا پولیس گردی، جماعت اسلامی کراچی، حیدر آباد، لاہور، پشاور اہم شہروں میں سرگرم تھی لیکن اچانک جنرل ضیا الحق کی جیب سے ایک مہرہ نکلا امریکا سے بلایا گیا اور کراچی و حیدر آباد میں اس کو پھیلایا گیا۔ یہ اعتراف خود جنرل ضیا الحق سرکٹ ہائوس حیدر آباد میں سیاسی رہنمائوں کے سامنے کرچکے ہیں کہ ایم کیو ایم کو جماعت اسلامی اور دینی جماعتوں کو روکنے کے لیے لایا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کو روکنے کے لیے صرف ایم کیو ایم کو نہیں لایا گیا اور یہ بھی پہلی مرتبہ نہیں ہوا جب 1969ء میں یوم شوکت اسلام کی شوکت دیکھی تو جنرل یحییٰ نے بھی جیب سے ایک نسخہ نکالا تھا اور پورے ملک میں دیکھتے ہی دیکھتے جماعت کے راستے میں اسلام ہی کے نام پر رکاوٹ کھڑی کردی گئی تھی۔ اور پورے ملک میں جماعت کو صرف چار نشستیں مل سکی تھیں۔ خیر بات ہورہی تھی ایم کیو ایم کے پھر واپس آنے کی یا لائے جانے کی۔ ایم کیو ایم پہلے بھی موجود تھی اور جب سے وجود میں لائی گئی ہے آید بکار کے طور پر اس کو لانے والوں نے ’’رکھا‘‘ ہوا ہے کبھی ٹکڑے کردیتے ہیں کبھی اس پرچم کے سائے تلے میں ایک نظر آتے ہیں۔ جس پارٹی کے پانچ ٹکڑے تھے 25 مارچ کو سب ایک ہوگئے ہیں اور الطاف کے نعرے بھی گونجے۔ حسب معمول نشتر پارک بھر دیا گیا اور اگلے دن فاروق ستار نکلے لیکن بس یوں ہی سا جلسہ کرایا۔ لیکن اس کے برخلاف حسب معمول اخبارات نے اچانک ایم کیو ایم پاکستان کو اچھال دیا۔ یا گود لے لیا۔ اشارے تو وہ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہر طرف سے ایم کیو ایم، ایم کیو ایم کے نعرے چل رہے ہیں۔ بڑے اخبارات جو کراچی کے حوالے سے جماعت اسلامی کی مہینوں سے چلنے والی تحریک سے آنکھیں بند کیے ہوئے تھے انہوں نے وہ سارے مطالبات ایم کیو ایم کے نام سے صفحہ اول پر جلی حروف میں شائع کردیے۔ جعلی مردم شماری کے خلاف جماعت اسلامی جدوجہد کررہی ہے، شہری سندھ کے نوجوانوں کے ساتھ زیادتی پر جماعت اسلامی نے آواز اٹھائی، کے الیکٹرک، کوٹا سسٹم، بلدیاتی الیکشن، پانی اور ٹرانسپورٹ وغیرہ پر جماعت اسلامی کراچی آواز اٹھارہی ہے لیکن تمام بڑے اخبارات اور چینل بس قسم کھانے کو خبر لگا ہی دیتے ہیں۔ کراچی کے حق سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔ چناں چہ ایم کیو ایم پھر لائی گئی ہے، کیوں… یہ سمجھنا بھی اب مشکل نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کا بت نئی تراش خراش کے بعد لایا گیا ہے اور ایک اخبار براہیم کی تلاش میں ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو لانے والے جب بھی لائے ہیں کئی کئی جہتوں سے اس کے لیے فضا سازگار کرتے ہیں۔ ویسے تو وہ جس کو بھی لاتے ہیں اسی طرح فضا بناتے ہیں اس میں اخبارات یا میڈیا بھی ہے۔ ایک دلچسپ تضاد بھی اسی میڈیا کا ہے۔ ایک جانب جماعت اسلامی پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کو اپنے ملک کے لوگوں کی فکر نہیں امت مسلمہ کی بات کرتی ہے۔ یہی ایم کیو ایم کہتی تھی کشمیر نہیں کراچی کی بات کرو… آج اس میڈیا کے ایک چھوٹے سے حصے سے آواز آئی ہے کہ ’’یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے‘‘۔ اس نے تنقید کی ہے کہ جماعت اسلامی امت مسلمہ کے مسائل چھوڑ کر صرف کراچی کے مسائل میں الجھ گئی ہے۔ یہ ہے اشارہ کہ امت کے مسائل ہیں کیا… جس کی وجہ سے اس اخبار کو اپنے دور کے براہیم کی تلاش ہوگئی ہے۔ اب کڑیاں ملائیے۔ جماعت اسلامی کا راستہ روکنے کے لیے ایم کیو ایم کے سارے ٹکڑے جوڑے جارہے ہیں۔ جماعت کے خلاف اخبار میں کراچی کو حق دو تحریک روکنے کے لیے مہم۔ کیوں کہ اس مہم کی زد ایم کیو ایم پر پڑی ہے اور یہی اخبار ایم کیو ایم کا بڑا نقاد بھی بنا ہوتا ہے۔ اسی اخبار کے ڈانڈے جنرل ضیا الحق اور جنرل حمید گل سے ملتے ہیں۔ تو پھر اتنا عمیق تجزیہ لکھنے والے بھول گئے کہ جماعت اسلامی کراچی میں تو ہے جو چند روز قبل فلسطین، کشمیر اور برما کے مسلمانوں کے لیے ریلیاں نکال رہی تھی
اگر یہی جماعت تین کروڑ کے شہر کی گنتی درست کرنے کا مطالبہ کرے اس شہر کو ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی اور امن و امان دینے کا مطالبہ کرے اور یہاں صنعتی ترقی کی بات کرے یہاں کے نوجوان کو روزگار دینے کی بات کرے تو زد کہاں پڑتی ہے۔ یہ سمجھنے کی بات ہے۔ زد کہاں پڑتی ہے اور تیر کہاں سے آرہا ہے۔ جہاں جہاں سے تیر آرہا ہے وہی سب ایک ہیں۔ جماعت اسلامی کے ان ہمدردوں کا مسئلہ یہ ہے کہ کبھی ایک ٹی وی اینکر جرگہ لے کر بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ جماعت اسلامی امت مسلمہ کے درد میں مبتلا ہے اسے کراچی نظر نہیں آتا، جہاں لوگ بجلی اور پانی کو ترس رہے ہیں، کرنٹ سے مررہے ہیں۔ اب یہ کھیل شروع ہوگیا ہے کہیں سے کہا جائے گا کہ امت مسلمہ کو یاد کرو سعودی عرب کے خلاف بات کرو۔ ایران کو بُرا کہو، کوئی کہے گا کہ چین کے مسلمانوں کا سودا کردیا اور کوئی کہے گا کہ ارے اپنے ملک کی فکر کرو۔ یعنی سب سے پہلے پاکستان… یہی ایم کیو ایم جس کی آئو بھگت میں جماعت اسلامی کی حق دو کراچی مہم کے خلاف مہم چل رہی ہے۔ اس نے ہمیشہ جماعت اسلامی کی 5 فروری کی ہڑتال کے اگلے روز یا ایک دن پہلے کراچی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی تا کہ لوگ کشمیر کو بھول جائیں۔ اسی ایم کیو ایم نے آواز اٹھائی کہ کشمیر نہیں کراچی کی خبر لو… خیر یہ ساری چیزیں آئیں گی۔ یہ اچھا ہوا کہ یہ سب پہلے آگئے۔ تا کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل ہی سب کو پہچانا جاسکے۔ ایک لطیفہ بھی ملاحظہ فرمائیں 25 مارچ کو ایم کیو ایم پاکستان کا 37 واں یوم تاسیس منایا گیا۔ 37 برس قبل قائم ہونے والی صرف ایم کیو ایم تھی اس کے بانی الطاف حسین تھے اور موجودہ ایم کیو ایم پاکستان 2015ء میں بنی ہے۔ صرف چھ سال بعد 37 واں یوم تاسیس۔ لگتا ہے ایک سال میں چھ یوم تاسیس منارہے تھے۔
دوسرا لطیفہ ایسے کہ جس جس کو سید مودودیؒ یاد آتے ہیں صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب جماعت اسلامی پر تنقید کرنی ہو یا اس کے کسی فیصلے سے اختلاف کرنا ہو۔ اپنے طرز عمل کے بارے میں بھی سید مودودیؒ کے فرمودات خود ہی ملاحظہ فرمالیں کچھ لکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ اس سارے ہنگامے کا مطلب صاف ہے کہ حق دو کراچی تحریک کا نشانہ ٹھیک جگہ پر لگ رہا ہے۔