حق دو کراچی کو

456

کراچی اُن بدقسمت شہروں میں سے ایک ہے جہاں اپنوں اور غیروں سمیت سب نے اس شہر پر شب خون مارا۔ 67فی صد ریونیو اور 41فی صد ٹیکس ادا کرنے والا شہر بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ کراچی پاکستان کی معیشت میں ریڈھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں پر موجود دو بندرگاہیں کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ گزشتہ چالیس سال سے پیپلز پارٹی بلا شرکت غیرے سندھ کی والی وارث بنی ہوئی ہے۔ دوسری جانب سندھ کے شہری علاقوں سے ایم کیو ایم اس شہر کی ٹھیکیدار بنی ہوئی تھی اور گزشتہ 30سال اس شہر اور یہاں کے لوگوں کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں رہی۔ حقوق کے نام پر سیاست کرنے والے سب سے بڑے حقوق کے غاصب بن گئے اورغنڈہ گردی، دہشت گردی اور لوٹ مار کی سیاست کو پروان چڑھانے والے ہی کراچی کے شہریوں کے سب سے بڑے دشمن بن گئے اس تنظیم نے مافیا کی طرح کام کرتے ہوئے پوری دنیا میں کراچی اور اہل کراچی کو بدنام اور بے نام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور پھر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جھولی بھر بھر کر ووٹ اور نوٹ لینے والو کو عوام نے جھولی بھر بھر کر بدعائیں بھی دیں۔ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو پھر اللہ ان ظالموں ہی میں سے ان کا حشر کرنے کے لیے ایک گروہ پیدا کرتا ہے جو ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتا ہے جو یہ دوسروں کے ساتھ کرتے تھے۔ لاشوں کی سیاست کے یہ بیوپاری لوگوں کے گھروں کو اجاڑنے کے بعد ان کے شہر کو بھی اجاڑ بیٹھے۔
آج اس شہر میں صوبائی سطح پر پیپلز پارٹی، وفاق کی سطح پر تحریک انصاف اور تحریک انصاف کی اتحادی ایم کیو ایم کی حکمرانی ہے۔ گزشتہ دنوں سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت سے کراچی میں تعمیر وترقی اور کراچی کے نوجوانوں کی نوکریوں کی بات کرنے کے بجائے اپنی تنظیمی سرگرمیوں کی بحالی، تنظیمی دفاتر کھولے جانے اور نشتر پارک میں جلسے کی انتہائی سطحی بات کی۔ پیپلز پارٹی کو کراچی کے عوام کے مسائل کا درد ہے نہ علم اور نہ ہی ان کی ترجیحات، تحریک انصاف کو اب تک یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ انہیں کراچی سے اتنی بڑی کامیابی حاصل ہوگئی ہے اور ان کے وزیر اعظم بھی بکری، بھیڑ، کٹے، انڈا، مرغی کی سیاست کر کے عوام کا دل بہلا رہے ہیں۔ اہل کراچی ان حالات میں بڑے مصائب اور مشکلات کا شکار ہیں۔ گلی گلی میں گٹر ابل رہے ہیں۔ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا سرے سے کوئی نظام ہی نہیں ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ کے الیکٹرک کی لوٹ مار اب عوام کی برداشت سے باہر ہوگئی ہے۔ بلدیاتی انتخاب نہ ہونے کے باعث مسائل میں مستقل اضافہ ہورہا ہے، بااختیار شہری حکومت کے قیام سے ہی کراچی کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوٹا سسٹم کراچی کے نوجوانوں کا استحصال کر رہا ہے، مردم شماری میں ڈنڈی مار کر تین کروڑ کی آبادی کو دیڑھ کروڑ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بے روزگاری اور مسائل میں مستقل اضافہ ہورہا ہے۔ نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے اور کراچی کے نوجوان روزگار اور اپنے بہتر مستقبل کے لیے بیرون ملک جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں جماعت اسلامی جس کو کراچی میں دو مرتبہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی میئر شپ ملی اور ایک مرتبہ شہری حکومت کی نظامت حاصل ہوئی ہے۔ میئر عبدالستار افغانی اور سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے جس دیانت داری اور ایمان داری ومحنت کے ساتھ کراچی کی عوام کی خدمت کی اور اس شہر میں ترقیاتی کام کا جال بچھایا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کراچی پینے کے صاف پانی کا عظیم کے تھری منصوبہ عبدالستار افغانی کا ہی کارنامہ تھا۔ اس کے بعد نعمت اللہ خان نے کے 4پر کام شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی لیکن اس عظیم منصوبے کو فائلوں تک ہی محدود رکھا گیا۔ اگر کے فور منصوبے پر کام جاری رہتا تو کراچی میں پانی کے بحران کا خاتمہ ہوجاتا لیکن سندھ حکومت اور کراچی دشمن قوتوں نے جان بوجھ کر اس عظیم منصوبے کو سبوتاژ کیا جس کا خمیازہ کراچی کے عوام بھگت رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کراچی جس کی بلاشبہ عوام میں جڑیں موجود ہیں اور نچلی سطح پر ان کی تنظیم اور افراد بھی موجود ہیں۔ جماعت اسلا می کراچی کے امیر ایک متحرک رہنما ہیں اور جب سے یہ امیر بنے ہیں انہوں نے اپنی جدوجہد کے ذریعے عوام اور اپنے کارکنان کو متحرک کیا۔ کے الیکٹرک، نادرا، بحریہ ٹائون کے خلاف ان کی جدوجہد کو عوام میں بے حد پزیرائی ملی اور جماعت اسلامی کو عوامی جماعت بننے کا بھی موقع ملا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر نے ایک بار پھر حق دو کراچی مہم کو تیز کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے اور اس سلسلے میں 28مارچ کو قائد آباد سے گورنر ہائوس تک ’’حق دو کراچی ریلی‘‘ کے نام سے ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ حق دو کراچی ریلی کے اعلان سے پورے شہر کراچی میں جماعت اسلامی کے کارکنان میں بھی ایک جوش اور ولولہ پیدا ہوگیا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر خود کراچی میں قائم گیارہ تنظیمی اضلاع کا صبح سے لیکر رات گئے تک طوفانی دورہ کر رہے ہیں۔ اس سلسے میں بازاروں مارکیٹوں، تاجروں، علمائے کرام، نوجوانوں، ہوٹلوں، بس اسٹاپ پر موجود افراد سے ملاقاتیں کی جا رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کی تنظیمی صلاحیت کسی شک وشبہے سے بالا ہے۔ کراچی میں پرخطر حالات میں متعدد مرتبہ ملین مارچ کر کے جماعت اسلامی نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ 28مارچ کو بھی قوی امید ہے کہ اہل کراچی شیر کراچی حافظ نعیم الرحمان کی اپیل پر ’’حق دو کراچی ریلی‘‘ میں بھرپور طریقے سے شریک ہوکر ثابت کر دیں گے کہ کراچی کے شہری لسانیت، فرقہ واریت کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے دفن کر کے ایک نئے عزم کے ساتھ کراچی کی تعمیر وترقی کے کیے متحد ہو گئے ہیں اور کراچی کی ترقی پاکستان کی ترقی، کراچی کی خوشحالی پاکستان کی خوشحالی ہے۔ کراچی کو تباہ برباد کرنے والے خاکم بدہن پاکستان کو تباہ وبرباد کرنا چاہتے ہیں لیکن اہل کراچی کے آبائو اجداد نے پاکستان بنایا تھا تو ان کی اولادیں ہی پاکستان کی حفاظت بھی کریں گی۔ ’’حق دو کراچی ریلی‘‘ کراچی کی عوام کی آوازہے۔ کراچی کے عوام کی آواز نہ سنا گیا اور کراچی کی تباہ حالی کا خاتمہ نہ کیا گیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔