قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے تیسرے امیر تھے 1973میں مولانا مودودی اپنی صحت کی وجہ سے جماعت کی امارت کی ذمے داریوں سے سبکدوش ہو گئے تھے ان کے بعد میاں طفیل محمد مرحوم امیر جماعت منتخب ہوئے جو تین مدت یعنی پندرہ سال جماعت کے امیر رہے۔ ان کے بعد قاضی حسین احمد امیر جماعت منتخب ہوئے اس سے قبل آپ جماعت کے قیم یعنی جنرل سیکرٹری تھے، قاضی صاحب نے امیر جماعت بننے کے بعد پوری قوت سے دینی جماعتوں کے اتحاد کی آواز بلند کی، وہ چاہتے تھے کہ جے یو آئی، جے یو پی، جمعیت اہلحدیث کا اتحاد بن جائے اس کے لیے انہوں نے مولانا فضل الرحمن، مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا سمیع الحق سے کئی بار ملاقاتیں کیں۔ قاضی صاحب کی کو ششیں اور کاوشیں رنگ لائیں اور ملک کی چھ دینی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل کے نام سے وجود میں آگیا۔ ان چھ جماعتوں میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق گروپ) جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت اہلحدیث اور اثنا عشری گروپ کے مولانا ساجد نقوی شامل تھے۔ متحدہ مجلس عمل کو عوام میں بہت پزیرائی ملی، 2002 کے عام انتخابات میں ایم ایم اے نے پورے ملک میں قابل ذکر کامیابی حاصل کی 65سے زائد قومی اسمبلی نشستیں متحدہ مجلس عمل کو ملیں اور کے پی کے میں (جو اس وقت صوبہ سرحد کہلاتا تھا) مجلس عمل کو حکومت سازی کا موقع مل گیا بقیہ تین صوبوں میں بھی مجلس عمل کو کچھ صوبائی نشستوں پر کامیابیاں حاصل ہوئیں اکرم درانی جن کا تعلق جے یو آئی ف سے تھا صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔
ان دنوں ہمارے ملک کی سیاست کچھ اس طرح چل رہی ہے کہ جیسے دو برابر کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ون ڈے میچ جس میں کبھی ایک ٹیم کا پلڑا بھاری نظر آتا تو کبھی دوسری ٹیم کا جب یوسف رضا گیلانی حفیظ شیخ کو ہرا کر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تو ملکی سیاست میں ایک تہلکہ مچ گیا کیونکہ حفیظ شیخ کے نمبر زیادہ تھے اور سرکاری حلقوں میں اطمینان کی یہ لہر موجود تھی کہ حفیظ شیخ آرام سے جیت جائیں گے۔ تین مارچ والا دن حکومت کے لیے اچھا نہیں تھا گیلانی صاحب کی جیت نے لوڈو کے سانپ سیڑھی والے کھیل کی طرح پی ڈی ایم کو اچانک اوپر پہنچا دیا اور پی ٹی آئی کو خفیہ بیلٹنگ کے سانپ نے اس طرح ڈسا کہ وہ بالکل نیچے آگئی، ایسے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے اعصاب کو مضبوط رکھتے ہوئے اپنے حق میں اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا اس میں انہوں نے پہلے سے دو ووٹ زیادہ ہی لے لیے اس طرح حکومت کی سیاسی پوزیشن کچھ بہتر ہوئی حالانکہ اس میں یہ خطرہ موجود تھا کہ پی ٹی آئی کے جن ارکان نے حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیے وہ شاید وزیر اعظم کو بھی نہ دیں لیکن یہ خطرہ ٹل گیا۔ تین مارچ کا دھچکا اتنا شدید تھا کہ سرکاری حلقوں میں اعتماد کا بحران نظر آرہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ حکومتی وکٹ کسی وقت بھی گر سکتی ہے۔ لیکن بارہ مارچ کو جاوید میاں داد کے شارجہ والے چھکے جیسا جو شاٹ مقتدر قوتوں نے کھیلا اس نے پورے کھیل کا پانسہ پلٹ دیا۔ پی ڈی ایم بہت پر اُمید تھی گیلانی صاحب سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب جیت جائیں گے صادق سنجرانی کے جیت نے پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکال دی۔
اب لے دے کر پی ڈی ایم کی سیاست کا سارا انحصار لانگ مارچ پر آکر اٹک گیا 26مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان تو پی ڈی ایم پہلے ہی کرچکی تھی۔ پی پی پی کو یقین کی حد تک یہ شبہ تھا کہ ن لیگ کے کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر اور کسی کے کہنے پر اپنے ووٹ ضائع کیے۔ منگل والے دن پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس میں آصف زرداری نے لانگ مارچ سے پہلے مستعفی ہونے کے لیے یہ شرط لگادی کہ نواز شریف صاحب ملک میں واپس آئیں تو ہم انہیں اپنے استعفے پیش کر دیں گے استعفوں سے انکار نے پی ڈی ایم کو جاں کنی کے عالم ڈال دیا یعنی اس وقت پی ڈی ایم ایک طرح سے کومے میں چلی گئی کہ عملاً تو پی پی پی، پی ڈی ایم سے الگ ہو گئی اب یہ کہا جارہا ہے کہ چار اپریل کو پی پی پی کی سی ای سی کا اجلاس ہوگا جس میں استعفوں کے معاملے پر غور کیا جائے گا، کئی سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ پی پی پی کبھی بھی استعفا نہیں دے گی وہ اپنی صوبائی حکومت کسی صورت نہیں چھوڑے گی۔ مولانا فضل الرحمن نے بہت بجھے دل سے ڈیڑھ منٹ کی پریس کانفرنس میں 26مارچ کے لانگ مارچ کے التوا کا اعلان کیا اور کہا کہ پی ڈی ایم کی ایک جماعت پی پی پی نے مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی مایوسی والی کیفیت دیکھنے لائق تھی اس موقع پر معروف تجزیہ نگار حامد میر کا یہ تبصرہ سامنے آیا کہ اب سے چودہ سال پہلے مولانا فضل الرحمن نے جو کچھ قاضی حسین احمد کے ساتھ کیا تھا وہی آج پی پی پی نے ان کے ساتھ کیا ہے ویسے تو مجلس عمل کے اندر مولانا فضل الرحمن قدم قدم پر قاضی صاحب کو مشکل میں ڈالتے رہے اجلاس میں کیے ہوئے فیصلوں کو خود تبدیل کر دیتے۔ کن کن موقعوں پر قاضی صاحب کو مولانا کے ہاتھوں پریشانی اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑا اس کا ذکر تو بعد میں کریں گے۔ پہلے اس کی بات ہو جائے کہ وہ کیا بات تھی جس پر حامد میر نے یہ کہا کہ آج مولانا کے ساتھ پی پی پی نے وہی کچھ کیا جو اب سے چودہ سال پہلے مولانا نے جماعت اسلامی کے ساتھ کیا تھا۔ پرویز مشرف نے متحدہ مجلس عمل سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انتخابات کے بعد وردی اُتار دیں گے لیکن انہوں نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا ایم ایم اے نے کچھ مہلت بھی دی پھر پرویز مشرف کے صدارتی انتخاب کا موقع آیا جس میں تمام قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کو ووٹ دینا ہوتا ہے ایم ایم اے کے سربراہ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اگر پرویز مشرف نے وردی نہیں اتاری تو ہم یعنی متحدہ مجلس عمل پورے ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائے گی اور جب ایک صوبائی اسمبلی کالعدم ہو جائے گی پھر صدر کا انتخاب نہیں ہو سکے گا۔
باقی صفحہ7نمبر1
جاوید احمد خان
ادھر مولانا فضل الرحمن پرویز مشرف سے خاموشی سے یہ بات کرچکے تھے وہ اسمبلیوں سے استعفا نہیں دیں گے الٹی میٹم کی تاریخ جب ختم ہوئی تو صرف قاضی حسین احمد اور جے یو آئی سیکرٹری حسین احمد نے استعفا دیا اس طرح مولانا نے مجلس عمل کی پیٹھ میں چھرا گھونپا یہ بات پچھلے دنوں جے یو آئی کے حسین احمد نے ایک ٹاک شو میں بتایا اور ہارون رشید نے بھی اپنے ٹاک شو میں بتایا۔
مجلس عمل میں مولانا کا طریقہ واردات یہ ہوتا کہ قاضی صاحب کے کسی موقف کے مقابلے میں یہ اپنی بات منوانا چاہتے تو مجلس عمل کی دیگر جماعتوں کے رہنمائوں کے ساتھ گفت و شنید کرکے ذہن سازی کر لیتے پھر اجلاس میں ان ہی کی بات فیصلہ کن ہوتی جیسے ابھی انہوں نے یہ کہا کہ دس میں سے نو جماعتیں استعفے کے حق میں تھیں ایک پی پی پی نہیں تھی حالانکہ ان نو جماعتوں میں دو ہی جماعتیں تو ایسی ہیں جو قومی و صوبائی ارکان کی کچھ قابل ذکر تعداد رکھتی ہیں بقیہ کے پاس تو دو دو یا چار چار ارکان ہیں کسی جماعت کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے لیکن مولانا پریس کانفرنس میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پی پی پی اکثریتی جماعتوں کے فیصلوں کو مسترد کررہی ہے۔ مجلس عمل میں قاضی صاحب اتحاد کو بچانے کی خاطر مولانا کے یوٹرن کو ایک ٹھنڈی سانس لے کر برداشت کر لیتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن جیسے ذہین و زیرک سیاستدان جس طرح بلاول مریم نواز کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور ان کی اپنی سیاسی چالیں مات کھارہی ہیں وہ قاضی صاحب کے ساتھ ان کی زیادتیوں کا نتیجہ ہیں کہ کل جو آپ نے بویا تھا وہی کاٹ رہے ہیں اس موقع پر ہمیں قاضی صاحب بہت یاد آرہے ہیں انہوں نے اس ملک میں اتحاد امت کی خاطر جو قربانیاں دی ہیں ہماری دعا ہے اللہ انہیں قبول فرمائے۔ آمین