یہ بھٹو دور کی بات ہے، ہمارے محلے میں ایک شخص کی بہت عزت تھی اور دوسرے شخص سے لوگ ڈرتے اور کنی کتراتے تھے، مجید کی اس لیے عزت کی جاتی تھی کہ اس کے پاس آٹے کا ڈپو تھا، اور دوسرے سے اس لیے کنی کتراتے تھے کہ وہ پولیس ٹائوٹ تھا اور شراب بیچتا تھا، دونوں ہی پیپلزپارٹی میں تھے، اسی ڈپو پر راشن کارڈ کے ذریعے آٹے کے بعد چینی بھی ملنا شروع ہوگئی، راشن کارڈ ان دنوں بہت مشکل بنتا تھا، بھٹو دور گزرے آج 44 سال ہوچکے، مگر ملک میں آج بھی آٹے اور چینی کا بحران ختم نہیں ہوا، پہلی بار ملک میں آٹے کا بحران غالباً 1953 کے لگ بھگ شروع ہوا تھا، ان دنوں گندم کی فی سیر (اس وقت کلو کا پیمانہ نہیں تھا) قیمت روپوں میں نہیں بلکہ آنوں میں تھی، ایک روپیہ سولہ آنے کے برابر تھا، اگر بات1953 سے شروع کریں تو ملک میں پہلی بار گندم کا بحران67 سال پہلے پیدا ہوا تھا، دنیا اس دوران کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہم ابھی تک چینی اور آٹے کے بحران سے باہر نہیں نکل سکے، کسی حکومت نے اس پر توجہ نہیں تھی، گزشتہ سال بحران آیا توکابینہ کے وزیر شیخ رشید احمد دور کی کوڑی لائے کہ سردیوں میں لوگ روٹی زیادہ کھاتے ہیں اس لیے بحران پیدا ہوا، گویا حل یہ تھا کہ سردیوں میں روٹی کم کھائی جائے تو بحران ٹل سکتا ہے، 1953 میں کہا جاتا تھا کہ کوڑیوں کے بھائو ملنے والی یہ جنس صرف پہنچ رکھنے والوں ہی کو مل رہی ہے، یعنی اشرافیہ ہی اسے پاسکتی تھی، آج بھی یہی صورت حال ہے، ملک میں گندم کی نئی فصل مارکیٹ میں آرہی ہے، اگلے ماہ کٹائی کا سیزن ہے، حکومت نے اب گندم کی سپورٹ پرائس میں اضافہ کیا ہے، یہ اضافہ اب کسے فائدہ پہنچائے گا، کسان کو یا مڈل مین کو۔ گندم جب مارکیٹ میں آئے گی تو پتا چلے گا کہ اس سال کتنی فصل ہوئی ہے، اگر فصل کم ہوئی تو قیمت بڑھ جائے گی، اور عین ممکن ہے کہ بیرون ملک میں منگوانا پڑ جائے، یوں درآمد کندگان کے بھی وارے نیارے ہوجائیں گے۔
67 پہلے جب مک میں بحران پیدا ہوا تو یہی تجزیہ تھا کہ حکومت کی تجارتی پالیسی میں کہیں کوئی خلا ہے پنجاب کی غلہ منڈیاں اناج کا مرکز تھیں اب وہاں ویرانی ہے، گندم کے بحران کا ایک حل یہ نکالا گیا کہ بین الاضلاعی نقل و حمل پر پابندی عائد کردی گئی، اس فیصلے کی کوکھ سے کرپشن اور اسمگلنگ نکلی، غلہ منڈیوں میں کاروبار ٹھپ ہوگیا، یومیہ مزدوری بھی ختم ہوگئی اور لاکھوں مزدور بے روزگار ہو گئے، تاریخ شاہد ہے اور بزرگ بھی بتاتے ہیںکہ 1953 میں غذائی قلت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ بعض علاقوں میں لوگوں نے درختوں کی جڑیں اور گھاس پھوس ابال کر پیٹ بھرنا شروع کر دیا تھا، یہ صورت حال شہروں اور دیہاتوں میں بھی تھی پھر حل یہ نکالا گیا کہ حکومت نے غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے 25 افراد سے زیادہ کو دعوت پر بلانا ممنوع قرار دے دیا اور خلاف ورزی پر تین سال قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں بیک وقت دینے کا اعلان ہوا، یہ بحران چلتا رہا اسی لیے تو بھٹو دور میں راشن کارڈ بنائے گئے، ان دنوں ایک دھندہ یہ بھی سامنے آیا کہ جعلی راشن کارڈ بنائے جانے لگے تاہم آج تک یہ بات سامنے نہیں آسکی کہ بین الاضلاعی نقل و حرکت کی خلاف ورزی کرنے والے کون لوگ تھے، آج بھی کچھ علم نہیں کہ آٹے کی اسمگلنگ میں کون ملوث ہے؟ ایک وقت یہ بھی آیا کہ عوام کو پکی پکائی روٹی فراہم کرنے کا فیصلہ ہوا، دعویٰ کیا گیا کہ حکومت اس نظام کی مسلسل جانچ پڑتال کرے گی، روٹی کا معیار برقرار رکھا جائے گا۔ یورپ اور امریکا کے بعد پاکستان پہلا ملک بن جائے گا جس سے عوام گھر میں روٹی پکانے کے جھنجھٹ سے آزاد ہو جائیں گے۔
پکی پکائی روٹی کا پہلا منصوبہ بھٹو کے دور میں بنا، لیکن گندم بحران کے حل پر کوئی بات نہیں ہوئی، یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے ایک اجلاس میں کہا گیا کہ گندم کے بحران سے نمٹنے کے لیے وہی طریقے اختیار کیے جائیں گے جو دوسری جنگ عظیم کے موقع پر اختیار کیے تھے اور حکومت نے آئندہ برس گندم کی زیادہ پیداوار دینے والے کسانوں کو انعامات دینے کی تجویز پر بھی غور کیا، یہی انعام آج کل کی سپورٹ پرائس ہے اس وقت 15 کروڑ روپے کی گندم خریدی گئی 100روپے سے کم ماہانہ آمدنی والے خاندانوں کے لیے سستی دکانیں کھولی گئیں مگر حکومت بحران سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے ستر کی دہائی میں بھی غذائی اجناس کی قلت پیدا ہوئی پیپلز پارٹی کی حکومت نے راشن ڈپو کا نظام قائم کردیا قطاروں میں لگ کر لوگ راشن کارڈ دکھا کر کنٹرول نرخوں پر آٹا اور چینی حاصل کرنے لگے اس پالیسی سے پی پی پی نے اپنے
لوگوں کو نوازا اور عوام کا مسئلہ حل نہ ہوا، آٹے اور چینی کے علاوہ بناسپتی گھی بھی یہی سے ملنے لگا ماضی سے لے کر آج تک تمام ادوار کا جائزہ لے لیا جائے ہر حکومت نے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک جیسی پالیسی اختیار کی اور آٹے کی اسمگلنگ نہیں رک سکی، تجزیہ یہی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی برس ہوں یا موجودہ زمانہ، مختلف مصلحتوں کی وجہ سے ہمیشہ ایسا طاقتور طبقہ موجود رہا ہے جس کے جرائم سے آنکھیں بند کرلی گئیں اور فائدے اشرافیہ نے اٹھائے، 1953 کے غذائی بحران کے موقع پر خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم تھے انہیں ’ہاظم الدین‘ کہا جانے لگا۔ 1958 میں پورے ملک میں غذائی قلت تھی مارشل لا کے نفاذ کے بعد غذائی قلت کا راتوں رات خاتمہ ہوگیا پیپلز پارٹی کی مقبولیت کی کمی میں بھی راشن ڈپو سسٹم نے بھی اہم کردار ادا کیا 1977 کے مارشل لا کے بعد آنے والی حکومتوں کے دور میں مختلف مواقع پر غذائی قلت کی صورتحال پیدا ہوئی جس میں جنرل مشرف کا دور بھی شامل ہے، ان تمام بحرانوں کے پس پشت وہی ایک ہی طرح کے عوامل کارفرما دکھائی دیتے ہیں، یعنی مستقبل میں پیدا ہونے والی صورتحال کا اندازہ کرنے میں ناکامی، بحرانوں سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کا فقدان اور طاقتور عناصر کی غیر قانونی سرگرمیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا، 1953 میں حکومت نے اتنی گر کر غذائی امداد مانگی کہ کراچی کی بندرگاہ پر اترنے والی گندم کو جن اونٹوں پر لادا گیا، ان کے گلے میں ’تھنک یو امریکا‘ یعنی شکریہ امریکا کی تختیاں لٹکا دی گئیں موجودہ دور میں بھی بنیادی مسئلے پر توجہ دینے کے بجائے گندم کی درآمد پر زور دیا جا رہا ہے۔