سرزمین عرب میں یہودیوں کی آمد

1257

درج بالا عنوان سے ایک مضمون 18مارچ جمعرات کے جسارت میں شائع ہوا ہے، مضمون میں یہودیوں کی موجودہ سرگرمیوں کے حوالے سے تفصیل دی گئی ہے سرزمین عرب سے نکالنے کے بارے میں مستند احادیث بھی دی گئیں ہیں اور یہ کہ اس بات کا بھی ذکر ہے کہ سیدنا عمرؓ کے دور حکومت میں یہودیوں کو سرزمین عرب سے نکال دیا گیا تھا لیکن پورے مضمون کو پڑھ جائیے تو کہیں بھی اس چیز کا ذکر نہیں ملے گا کہ سر زمین عرب میں کب اور کیسے یہودی داخل ہوئے اور اسے اپنا مسکن بنایا۔
تفہیم القرآن کی پانچویں جلد میں مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی نے سورہ الحشرکے تاریخی پس منظر میں اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے مولانا لکھتے ہیں: ’’عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے انہوں نے خود اپنی کوئی ایسی تحریر کسی کتاب یا کتبے کی شکل میں نہیں چھوڑی جس سے ان کے ماضی پر کوئی روشنی پڑ سکے۔ حجاز کے یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ سب سے پہلے وہ سیدنا موسیٰ ؑ کے آخر عہد میں یہاں آکر آباد ہوئے تھے اس کا قصہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ سیدنا موسیٰؑ نے ایک لشکر یثرب کے علاقے سے عمالقہ کو نکالنے کے لیے بھیجا تھا اور اسے حکم دیا تھا کہ اس قوم کے کسی شخص کو زندہ نہ چھوڑیں۔ بنی اسرائیل کے اس لشکر نے یہاں آکر فرمان نبی کی تعمیل کی، مگر عمالقہ کے بادشاہ کا ایک لڑکا بڑا خوبصورت اور جوان تھا اسے انہوں نے زندہ رہنے دیا اور اس کو ساتھ لیے ہوئے فلسطین واپس پہنچے۔ اس وقت سیدنا موسیٰؑ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے جانشینوں نے اس بات پر سخت اعتراض کیا کہ ایک عمالیقی کو زندہ چھوڑ دینا نبی کے فرمان اور شریعت موسوی کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس بنا پر انہوں نے اس لشکر کو اپنی جماعت سے خارج کردیا، اور اسے مجبوراً یثرب واپس آکر یہیں بسنا پڑا۔ اس طرح یہودی گویا اس بات کے مدعی تھے کہ وہ 1200قبل مسیح سے یہاں آباد ہیں۔ لیکن درحقیقت اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے اور اغلب یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ افسانہ اس لیے گھڑا تھا کہ اہل عرب پر اپنے قدیم الاصل اور عالیٰ نسب ہونے کی دھونس جمائیں‘‘۔
’’دوسری یہودی مہاجرت خود یہودیوں کی اپنی روایت کے مطابق 587قبل مسیح میں ہوئی جبکہ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کرکے یہودیوں کو دنیا میں تتربتر کردیا تھا۔ عرب کے یہودی کہتے تھے کہ اس زمانے میں ہمارے متعدد قبائل آکر وادی القرا، تیما اور یثرب میں آباد ہو گئے تھے لیکن اس کا بھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ اس سے بھی وہ اپنی قدامت ثابت کرنا چاہتے ہوں‘‘۔
درحقیقت جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب 70عیسوی میں رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتل عام کیا اور پھر 132عیسوی میں انہیں اس سرزمین سے بالکل نکال باہر کیا، اس دور میں بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوئے تھے، کیونکہ یہ علاقہ فلسطین کے جنوب میں متصل ہی و اقع تھا۔ یہاں آکر انہوں نے جہاں جہاں چشمے اور سرسبز مقامات دیکھے وہاں ٹھیر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سود خواری کے ذریعے سے ان پر قبضہ جما لیا ایلہ، مقنا تبوک تیما، وادی القریٰ فدک اور خیبر پر ان کا تسلط اسی دور میں قائم ہوا اور بنی قریظہ، بنی نضیر، بنی یبدل، بنی قینقاع بھی اسی دور میں یثرب پر آکر قابض ہوئے۔ یثرب میں آباد ہونے والے قبائل میں سے بنی نضیر اور بنی قریظہ زیادہ ممتاز تھے کیونکہ وہ کاہنوں Cohen یا Priests کے طبقے میں سے تھے اور انہیں یہودیوں میں عالیٰ نسب مانا جاتا تھا اور ان کو اپنی ملت میں مذہبی ریاست حاصل تھی یہ لوگ جب مدینے آکر آباد ہوئے اس وقت کچھ دوسرے عرب قبائل یہاں رہتے تھے جن کو انہوں نے دبا لیا اور عملاً اس سرسبز شاداب مقام کے مالک بن بیٹھے۔ یثرب میں چونکہ یہودی چھائے ہوئے تھے اس لیے انہوں نے اول اول اوس اور خزرج کی دال نہ گلنے دی اور یہ دونوں عرب قبیلے چار و ناچار بنجر زمینوں پر بس گئے جہاں ان کو قوت لایموت بھی مشکل سے حاصل ہوتا تھا۔ آخر کار ان کے سرداروں میں سے ایک شخص اپنے غسانی بھائیوں سے مدد مانگنے کے لیے شام گیا اور وہاں سے ایک لشکر لاکر اس نے یہودیوں کا زور توڑ دیا۔ اس طرح اوس و خزرج کو یثرب پر پورا غلبہ حاصل ہو گیا۔ یہودیوں کے دو بڑے قبیلے بنی نضیر اور بنی قریظہ شہر کے باہر جا کر بسنے پر مجبور ہو گئے۔ تیسرے قبیلے بنی قینقاع کی چونکہ ان دونوں یہودی قبیلوں سے اَن بَن تھی اس لیے وہ شہر کے اندر ہی مقیم رہا مگر یہاں رہنے کے لیے انہیں قبیلہ خزرج کی پناہ لینی پڑی۔ اس کے مقابلے میں بنی نضیر اور بنی قریظہ نے قبیلہ اوس کی پناہ لی تاکہ اطراف یثرب میں امن کے ساتھ رہ سکیں۔
سورہ حشر کی دوسری آیت کا ترجمہ ہے کہ: ’’وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے حملے میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا‘‘۔ اس جگہ اول الحشر سے مراد مفسرین کے ایک گروہ کے نزدیک اس سے مراد بنی نضیر کا مدینہ سے اخراج ہے اور اس کو ان کا پہلا حشر اس معنی میں کہا گیا ہے کہ ان کا دوسرا حشر سیدنا عمرؓ کے زمانے میں ہوا جب یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکالا گیا اور آخری حشر قیامت کے روز ہو گا۔
مکی دور کے آخری برسوںمیں جب کفار مکہ کا ظلم و ستم بہت بڑھ گیا تھا اور آپؐ کے قتل کے درپے ہو گئے تھے ان دنوں میں یہودیوں نے کفار قریش کے ذریعے سے محمدؐ سے ایک سوال کروایا کہ بنی اسرائیل کا فلسطین سے مصر جانے کا سبب کیا تھا ان کی چال یہ تھی کہ کفار قریش تو تاریخی پس منظر سے ناواقف ہیں اور نبی اکرمؐ کو لا محالہ اس سوال کے جواب کے لیے کسی یہودی عالم سے رابطہ کرنا پڑے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے سورہ یوسف نازل کرکے اس کا جواب بھی دے دیا اور سیدنا یوسفؑ کے قصے کو بھی تمام فرضی قصوں سے صاف کرکے پیش کردیا۔ سیدنا یوسف ؑ سیدنا یعقوبؑ کے بیٹے سیدنا اسحاقؑ کے پوتے اور سیدنا ابرہیمؑ کے پڑپوتے تھے۔ بائیبل کے بیان کے مطابق (جس کی تائید قرآن کے اشارات سے بھی ہوتی ہے) سیدنا یعقوبؑ کے بارہ بیٹے چار بیویوں سے تھے، سیدنا یوسفؑ اور ان کے چھوٹے بھائی بن یامین ایک بیوی سے باقی دس دوسری بیویوں سے۔ فلسطین میں سیدنا یعقوبؑ کی جائے قیام جبرون (موجودہ الخیل) کی وادی میں تھی جہاں سیدنا اسحاقؑ اور ان سے پہلے سیدنا ابراہیمؑ رہا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سیدنا یعقوبؑ کی کچھ زمین سکم (موجودہ نابلس) میں بھی تھی، پھر سیدنا یوسف ؑ کا پورا قصہ سورہ یوسف میں ہے کہ کس طرح ان کے بھائیوںاپنے والد سیدنا یعقوبؑ سے اجازت لیکر یوسفؑ کو ساتھ لے گئے اور کنویں میں پھینک دیا ایک تجارتی قافلہ جو مصر جارہا تھا اس نے کنویں میں سے سیدنا یوسفؑ کو نکالا اور مصر کے بازار میں لے جاکر بیچ دیا پھر پورا قصہ ہے کہ کس طرح آپ وہاں کے حکمران بنے اور ان کے والدین اور سارے بھائی فلسطین سے مصر آگئے یہ سبب بنا تھا یہودیوں کا فلسطین سے مصر جانے کا۔
یہودی قوم اللہ کی نافرمان قوم ہے جس نے اپنے انبیاء کو قتل کیا وہ ٹھکرائی ہوئی اور دھتکاری ہوئی قوم ہے اس لیے وہ پوری دنیا میں تتربتر ہو کر رہتے ہیں اور ہر جگہ کسی نہ کسی کی پناہ میں رہنا پڑتا ہے مدینے میں بھی تینوں یہودی قبائل اوس اور خزرج کی پناہ میں تھے۔ آج کے زمانے میں اسرائیل بھی اگر قائم ہے تو وہ امریکا، روس، برطانیہ، فرانس جیسی بڑی طاقتوں کی سرپرستی کی وجہ سے قائم ہے اگر آج ان بڑی طاقتوں کی پشت پناہی اسرائیل پر سے ہٹ جائے تو اسرائیل کے سارے یہودی خوف کے مارے بھاگ جائیں گے اور یہ تتر بتر ہو جائیں گے اور اسرائیل کا نام بھی دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا۔