کہتے ہیں سیاست امکانات کا کھیل ہے اور جو لوگ امکان کو حقیقت میں بدلنے کا ملکہ رکھتے ہیں وہی اس کھیل کے کامیاب کھلاڑی قرار پاتے ہیں۔ آصف علی زرداری کی شخصیت کا منفی تاثر اگرچہ بہت عام ہے لیکن سیاست میں ان کی جادوگری کے سبھی قائل ہیں وہ پس پردہ رہ کر ایسے کام کرجاتے ہیں جو بظاہر بہت دشوار نظر آتے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان میں راتوں رات مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو گرایا تھا جب کہ پہلی دفعہ صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنوانا بھی انہی کا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ بعد میں اگرچہ سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کی گئی لیکن وہ اس لیے کامیاب نہ ہوسکی کہ اسے زرداری کی تائید حاصل نہ تھی۔ انہوں نے سینیٹ کے انتخابات میں اسلام آباد سے سید یوسف رضا گیلانی کو سرکاری امیدوار حفیظ شیخ کے مقابلے پر کھڑا کیا تو ابتدا میں گیلانی خود گھبرائے ہوئے تھے کہ ملتان سے اسلام آباد آکر ڈیرا جمانا اور معرکہ مارنا آسان نہ تھا لیکن زرداری نے انہیں حوصلہ دیا کہ گھبرائو نہیں تمہیں جتوانا ہماری ذمے داری ہے۔ اِدھر گیلانی ملتان سے اسلام آباد پہنچے اور اُدھر زرداری نے بھی کراچی سے اسلام آباد کا رُخ کرلیا۔ گیلانی حفیظ شیخ کے مقابلے میں اس لیے ’’ہیوی ویٹ‘‘ ثابت ہوئے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ سے بھی رشتے داری تھی اور سیاست دانوں سے بھی تعلقات تھے۔ اس طرح زرداری کا کام نسبتاً آسان ہوگیا۔
کہا جاتا ہے کہ زرداری کو گیلانی سے کوئی دلچسپی نہ تھی وہ تو سرکاری امیدوار کے مقابلے میں اپنا امیدوار کامیاب کروا کے یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ وزیراعظم کے خلاف ان کی مجوزہ تحریک اعتماد میں کتنی جان ہے۔ یہ ایک قسم کا لِٹمس ٹیسٹ تھا جس میں وہ کامیاب رہے۔ عمران خان نے ہوشیاری یہ کی کہ گیلانی کی کامیابی کے فوراً بعد قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر تحریک عدم اعتماد کا راستہ مسدود کردیا لیکن آئینی ماہرین کے مطابق یہ راستہ ہمیشہ کے لیے بند نہیں ہوا بلکہ چھ ماہ کے بعد کسی وقت بھی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جاسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زرداری اب بھی اس بات پر مُصر ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو لانگ مارچ اور استعفوں کے بجائے عدم اعتماد کے آئینی طریقے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس میں خیال تھا کہ زرداری کو آڑے ہاتھوں لیا جائے گا اور لانگ مارچ کا آپشن سرفہرست رہے گا لیکن اجلاس کی جو اندرونی کہانی سامنے آئی ہے اس کے مطابق اگرچہ مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ ن کے لیڈروں نے لانگ مارچ اور استعفوں کے ایشو پر پیپلز پارٹی کی خوب کھنچائی کی لیکن میدان زرداری ہی کے ہاتھ میں رہا۔ انہوں نے ایسی جادوگری دکھائی کہ لانگ مارچ کا سارا پروگرام دم توڑ گیا۔ اب شاید کوئی اس کا نام لینے کی بھی ہمت نہ کرسکے گا۔ کیوں کہ زرداری نے اس کے لیے شرط ہی ایسی لگادی ہے کہ ’’نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘‘۔ نہ نواز شریف لندن سے واپس آئیں گے نہ لانگ مارچ ممکن ہوسکے گا۔ مریم نواز نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہم میاں صاحب کو قاتلوں کے حوالے نہیں کرسکتے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمن تو اس صورت ِ حال سے اتنے مایوس تھے کہ انہوں نے میڈیا کا سامنا کرنا بھی گوارہ نہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب پی ڈی ایم کا وجود ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ زرداری نے جو چھکا مارا ہے اس کے بعد پی ڈی ایم کا برقرار رہنا آسان نہیں رہا۔ صاف محسوس ہورہا ہے کہ زرداری نے اپوزیشن اتحاد سے اپنا راستہ الگ کرلیا ہے اور اب وہ بالواسطہ طور پر مقتدرہ کے ساتھ رسم وراہ بڑھانے میں مصروف ہیں۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہمیشہ ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو پیپلز پارٹی نے اس کے اقتدار چھیننے کی پوری کوشش کی جب کہ مسلم لیگ ن نے اسے رگڑا لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ پاکستان کی سیاست ایک مدت تک ان دونوں جماعتوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ کشمکش، محاذ آرائی اور جوڑ توڑ کی سیاست جس میں کسی اصول اور ضابطے کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ پھر حالات کے جبر نے دونوں جماعتوں کو اکٹھا ہونے اور ’’میثاق جمہوریت‘‘ کرنے پر آمادہ کردیا۔ جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی منتخب حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ وہ دونوں جماعتوں سے اپنے مطلب کے آدمی نکال کر حکومت چلانے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے اور اس پر کامیابی سے عمل بھی کررہے تھے۔ چناں چہ دونوں پارٹیوں کی قیادت نے اپنی بقا کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانا ضروری سمجھا لیکن دونوں پارٹیوں کی سیاسی حکمت عملی اس کے باوجود متضاد ہی رہی۔ اب عمران خان برسراقتدار آکر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو بیک وقت للکار رہے ہیں اور میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا نام لے کر انہیں قومی دولت لوٹنے کے مجرم قرار دے رہے ہیں۔ تو اگرچہ ان دونوں سیاستدانوں اور ان کی پارٹیوں کو اس مشترکہ چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پھر پی ڈی ایم کی صورت میں متحد ہونا پڑا ہے لیکن دونوں کے راستے بالکل مختلف ہیں۔ میاں نواز شریف مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں وہ جرنیلوں کے نام لے کر ان پر تنقید کررہے ہیں اور مقتدرہ کو دبائو میں لاکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں جب کہ زرداری مفاہمت اور سمجھوتے کے ذریعے اقتدار میں اپنا حصہ چاہتے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ اگر عمران خان مقتدرہ کی توقعات پر پورے نہ اُترے اور ان کی جگہ دوسرے مہرے کی تلاش شروع ہوئی تو میاں نواز شریف مقتدرہ کی فہرست سے خارج ہوں گے ایسے میں پیپلز پارٹی کی قیادت پر ہی اس کی نظر آکر ٹکے گی۔ زرداری اپنی سیاسی جادوگری کے ذریعے صدارت کا منصب حاصل کرچکے ہیں اور اب بلاول کے لیے وزارت عظمیٰ پر نظر ہے۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے وہ اپنی جو سیاسی اہمیت منوانا چاہتے تھے منوا چکے اب وہ اپنی جادوگری آزمانا چاہتے ہیں۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا