23 مارچ ایک عہد کی یاد دلاتا ہے وہ عہد جو بحیثیت مسلمان ایک الگ خطہ میں اسلامی قانون کا عملی نفاذ کا عہد تھا جہاں قانون صرف اللہ اور اسکے رسول کا چلے گا اسی عہد پر اس خطے کے لیے جدوجہد کی تھی کہ ہم ایک آئیڈیل اسلامی اسٹیٹ قائم کر کے دنیا کو دکھائیں گے لیکن افسوس ابھی تک ہم اسلامی اسٹیٹ قائم ہی نہیں کر سکے ہمارے وہی مغربی قوانین نافذ ہے اسلامی قوانین بس دستور کی حد تک قائم ہے پاکستان ملک افراتفری کا شکار ہے کوئی بھی حکمران آتا ہے وہ لوگوں کو روٹی کپڑا مکان کے دلفریب نعروں میں الجھا کر ملک کی دولت سمیٹ کر ملک بدر ہو جاتا ہے اور عوام کی وہی حالت بدستور رہتی ہے ہمارا اصل مسلہ اسلامی قوانین کا عملی نفاذ ہے اس کے لیے جدوجہد بکھرنے کی ضرورت ہے ہمیں وہی جذبہ درکار ہے جو 23مارچ میں نوجوانوں کے اندر دکھائی دیا تب بھی ہم نظریے کے لیے ایک ہوئے اور اب بھی ہمیں نظرئے کے لیے ایک ہونے کی ضرورت ہے نوجوان کسی بھی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوتے ہیں ان کا جوش و جذبہ محبت کاموں میں لگا دوں تو یہ کسی بھی قوم کی کایا پلٹ سکتے ہیں اقبال نے نوجوان کو شاہین کہہ کر اس کے مقصد وجود کی طرف توجہ کروائی شاہین اپنے شکار کو کسی لمحے فراموش نہیں کرتی بلکہ اس کو پکڑنے کے لئے نئے طریقے اختیار کرتی ہے اور اسکی پرواز اونچی اور تیز ہوتی ہے آج کے نوجوان کو جدید علم سے آراستہ ہو کر اپنے ملک کی ترقی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اپنا وقت لایعنی کاموں میں ضائع کر کے اپنی صلاحیتوں کو زنگ نہیں لگانا چاہیے بلکہ ایسے کام کریں جو کہ نا صرف انکی دنیا بلکہ آخرت بھی سنوار سکیں کیونکہ گیا وقت واپس نہیں آ تا نوجوانی میں کی گئی کوشش کارآمد ثابت ہوتی ہے ہمیں نظرئے پاکستان پر عمل درآمد کے لیے بھی کوشش کرنی چاہیے ایسے پلیٹ فارم اختیار کریں جس سے آپ اپنی آواز لوگوں تک پہنچا سکے اس نظریے سے محبت ہی اصل میں پاکستان سے محبت ہے ۔