کراچی (رپورٹ : سید وزیر علی قادری) 37سال دنیائے اسکواش پر راج کرنے والا پاکستان حکومتی لاپرواہی ، اسپانسراز اورکھلاڑیوں کی فنٹنس میں عدم دلچسپی نے اسکواش کو عالمی نقشے سے غائب کردیا ہے اور کیا وجہ ہے کہ پاکستان اسکواش کا عالمی چیمپئن نہیں بن پارہا؟اس صورتحال کا کون ذمے دار ہے اور اب کیا کرنا ہے تاکہ پاکستان کم از کم اسکواش کے میدان میں دوبارہ عالمی چیمپئن بن سکے ،اس معاملے کو جسارت نے پاکستان کے اسکواش لیجنڈز کے سامنے اٹھایا ہے ۔عالمی اسکواش چیمپئن لیجنڈ قمر زمان نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کھلاڑیوں نے 37سال تک دنیا ئے اسکواش پر راج کیا اور قومی پرچم بلند رکھا، ہاشم خان، اعظم خان،روشن خان، محب اللہ سینئر، قمرزمان،جہانگیر خان، جان شیر خان نمایاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہانگیر اور جان شیر فٹنس کے حوالے سے سخت محنت کرتے تھے ۔جلدسونا ، جلداٹھنا، یہ ساری چیزیں جب آپ کرتے ہیں تو بہترین انداز میں خود کو فٹ رکھتے ہو۔اس ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے بس مسئلہ صرف فٹنس کا ہے ،نئی نسل شارٹ کٹ چاہتی ہے ،اسپورٹس کی دنیا میں شارٹ کٹ نہیں ہوتا،یہ بات درست ہے حکومت کی طرف سے سہولیات میسر ہونی چاہیں ۔آج کے دور میں کوچز، تربیتی کیمپس ، ماہر نفسیات سمیت تمام سہولیات موجود ہیں۔پاکستان
اسکواش فیڈریشن نے بیڑا اٹھایا ہے اور وہ یہ کام سرانجام دے رہی ہے ہر جگہ اکیڈمیز بنا دی ہیں،پشاور ، لاہور ، کراچی ، کوئٹہ میں بھی کام ہورہا ہے لیکن یہ کام 30سال قبل ہونا چاہیے تھا۔اسکواش بہت سخت کھیل ہے۔ اسپرٹ، پھرتی، حکمت عملی تمام چیزیں استعمال ہوتی ہیں۔ آج کے کھلاڑیوں میں یہ کمی ہے اگر یہ درست ہوجائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان دوبارہ عالمی چیمپئن نہ بنے ۔عالمی چیمپئن جہانگیر خان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسکواش میں فتوحات کا سلسلہ 1950ء میں شروع ہوااس کی بڑی وجہ سخت محنت ،جذبہ اور حوصلہ تھا جو 37سال تک برقرار رہا۔افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے 37سال سبز ہلالی پرچم دنیا کے نقشے میں لہرایا اور اب ہم کہاں کھڑے ہیں؟ حالانکہ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت فتوحات سمیٹیںکوئی پلان ،نقشہ یا سہولیات میسر نہیں تھیں۔اس سلسلے میں ایک پلیٹ فارم ہوتا ہے اور روڑ میپ دینا ہوتا ہے اپنے نوجوانوں کے لیے اکیڈمیز بنانی ہوتی ہیں جس میں ہر سطح پر چاہے وہ حکومتی بنیادوں پر ہو اور یا اسپانسرز ہوں اور یا آپ کا شعبہ صحافت ،میڈیا ہو وہ ان کے ذریعے سے قوم جواں عزم سپوتوں کو یاد رکھتی ہیں ،ان کے کارنامے ہمیشہ نئی نسل کے لیے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں کوئی کام نہیں ہوسکے گا۔ اس ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں بس نئی نسل کو آگے لانا ہوگا ۔جو اسپورٹس پالیسیاں ہوتی ہیں انہیں فولو کیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ پاکستان پھر سے چیمپئن بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔عالمی چیمپئن جان شیر خان کے نزدیک ناکامی کی ذمے داری کوئی لینے کو تیار نہیں اور اب کیا ہونا چاہیے اس سلسلے میں پیشرفت اس طرح نہیں ہوپارہی جس سے رفتار میں تیزی آئے اورپاکستان اسکواش کی دنیا میں دوبارہ وہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے ۔ اس کے لیے ہم سب کو آگے آنا ہوگا اور سنجیدگی سے اس پر کام کرنا ہوگا۔ان تمام چیمپئنز سے گفتگو کرنے کے بعد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسکواش کے کھیل کی ترقی کے لیے دلچسپی لی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دوبارہ ولڈ چیمپئن نہ بن سکیں۔