شام کی جنگ دوسری عالم گیر جنگ سے زیادہ تباہ کن

521

شام میں جنگ کو دس سال پورے ہونے کو آئے ہیں۔ دس سال پہلے موسم بہار کے ْپر امن دن میں یہ طویل خونریز جنگ شروع ہوئی تھی جس میں پچھلے دس برس میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک لاکھ سولہ ہزار سے زیادہ شہری شامل ہیں اور بارہ ہزار بچے بھی ہیں۔ دوسری عالم گیر جنگ صرف چھ سال جاری رہی لیکن شام کی جنگ دس سال سے تجاوز کر گئی ہے۔ شام میں جنگ شروع ہونے سے پہلے حالات دگر گوں تھے۔ بے روز گاری اپنی انتہا پر تھی اور بد عنوانی نے پورے ملک کو گھیر رکھا تھا۔ سن دو ہزار میں حافظ الاسد کی جگہ ان کے صاحب زادے بشار الاسد بر سر اقتدار آئے تھے۔ مارچ دو ہزار ایک میں جنوبی شام میں جمہوریت نواز مظاہرے بھڑک اٹھے تھے۔ بشار الاسد کی حکومت نے ان مظاہروں کو پر تشدد طریقہ سے کچلنا چاہا تو حکومت کے خلاف مظاہرے پورے ملک میں پھیل گئے۔ بشار الاسد نے ان مظاہروں کا الزام غیر ملکی طاقتوں پر عاید کیا۔ حکومت اور مخالفین کے درمیان یہ تشدد خانہ جنگی کی صورت اختیار کر گیا جس میں جہادی تنظیمیں اور القاعدہ بھی شامل ہوگئی۔ اسی کے ساتھ شام کے کرد بھی حکومت کے خلاف اس جنگ میں شامل ہوگئے۔
بشار الاسد کے سب سے بڑے حامی روس اور ایرا ن رہے ہیں جب کہ ترکی، مغربی قوتیں اور خلیج کی عرب ریاستیں بشار الاسد کی مخالفیں حمایت کرتی رہی ہیں۔ روس نے جس کے خانہ جنگی سے پہلے شام میں اڈے تھے دو ہزار پندرہ میں صدر اسد کی حمایت میں حملے شروع کیے جن سے جنگ کا نقشہ بدل گیا۔ روسی فوج کا کہنا تھا کہ اس نے صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا تھا۔ امریکا برطانیہ اور فرانس نے شام کے متعدل گروپوں کی حمایت کی تھی اور ترکی اپوزیشن کے حمایت کرتا ہے۔ سعودی عرب نے جنگ کے آغاز پر ایرانی اثر کو توڑ کے لیے قطر کے ساتھ جنگ کے شروع میں باغیوں کی مدد کی تھی۔
جنگ سے شام کی آبادی اکیس ملین سے زیادہ تھی اس میں سے آدھی آبادی جنگ کی وجہ سے ملک سے فرار ہوگئی۔ چھپن لاکھ شامی ملک سے باہر آباد ہو گئی ہیں۔ شام کی جنگ میں پچھلے دس سال میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ شام کی فوج کے ایک لاکھ چھپن ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ باغی تنظیموں کے تیرہ ہزار نو سو اور فوج کے سات ہزار سات سو افراد ہلاک ہوئے۔ گو جنگ کے بعد اب حکومت نے بڑے بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے لیکن بہت سے علاقے اب بھی جہادی باغیوں اور کرد تنظیموں کے قبضہ میں ہیں۔ مارچ سن دو ہزار بیس میں روس اور ترکی کے درمیان عدلیب میں جنگ بندی ہوگئی ہے جس کے بعد اس علاقے میں امن ہے لیکن مکمل امن وامان کے لیے سیاسی سمجھوتا لازمی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مصر ہے کہ سیاسی مذاکرات ہوں۔ ویسے جینوا دوم کے تحت سمجھوتے کے لیے بات چیت کے نو ادوار ہو چکے ہیں۔ روس، ایران اور ترکی نے دو ہزار سترہ میں آستانہ سیاسی مذاکرات کے نام سے مذاکرات شروع کیے ہیں جس کے کوئی نتائج سامنے نہیں آئے۔ شام کی جنگ در اصل عرب ممالک میں جمہویت نواز تحریک کے نتیجے میں بھڑکی تھی جو عر ب بہار کہلاتی ہے۔
شام کی جغرافیائی حیثیت عالم عرب میں بے حد اہمیت کی حامل تسلیم کی جاتی ہے، اس کی سرحدیں ترکی سے اور شمال میں عراق ، مشرق وسطیٰ میں لبنان، بحیرہ روم، مغرب میں اسرائیل، اردن اور بحیرہ روم سے ملتی ہیں۔ شام کے راستے ایران کے روابط بحیرہ روم تک جا پہنچتے ہیں جن کی بے حد سیاسی اور اقتصادی اہمیت ہے۔ بے حد افسوس کی بات ہے کہ دس سال کی خونریز خانہ جنگی کے بعد بھی شام کا مستقبل اور اس کا امن غیر یقینی کے سمندر میں غلطاں ہے۔