کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری)برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ مقامی رہائشیوں کے لیے زحمت بن گئی ہے، ہوٹل مالکان نے مسجد کی دیوار کے ساتھ اور استنجا خانے کے سامنے میز اور کرسیاں لگاکر کھانے کا بندوبست کیا ہوا ہے۔کھانے کے شوقین حضرات کے لیے بنائی گئی برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ بدانتظامی کے باعث مقامی رہائشیوں کے لیے زحمت بن گئی ہے۔برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ کی مرکزی سڑک کو شام 7 بجے سے ٹریفک کے لیے بند کرنے کے باعث مقامی رہائشیوں کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔علاقہ مکینوں نے سندھ ہائی کورٹ میں سڑک بند کرنے کیخلاف آئینی پٹیشن دائر کر رکھی ہے،اس حوالے سے برنس روڈ کے رہائشی محمد ارسلان نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایک طرف رات میں سڑک بند رہتی ہے اور دوسری جانب اب دن مین بھی برنس روڈ کی مرکزی سڑک اور گلیوں پر ریسٹورنٹ والوں کا قبضہ معمول بن گیا ہے۔ہمارے گھروں کے راستے پر بھی کرسیاں اور میز ڈال کر راستے بند کر دیے جاتے ہیں، ہمارے گھروں کی خواتین شام کے بعد گھروں سے نہیں نکل سکتی ہیں، انہوں نے بتایا کہ سندھ سرکار کی جانب سے ہمیں کہا گیا تھا کہ رہائشیوں کے لیے گاڑیوں کے اسٹیکرز جاری کئے جائیں گے‘فوڈ اسٹریٹ آنے والوں کو ویلے پارکنگ کی سہولت مہیا کی جائے گی۔ایمرجنسی صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لیے راستہ رکھا جائے گا‘ سڑک کے دونوں اطراف مارکنگ کی جائے گی تاکہ ہوٹلز کرسیاں آگے نہ رکھ سکیں۔مقامی شہریوں کا کہنا ہے حکومت نے جو وعدہ کیا تھا جو ابھی تک وفا نہیں ہوا ہے۔برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ کے لیے سندھ حکومت نے مقامی افراد کے لیے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے یہ تاثر ملے کہ مقامی رہائشیوں کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔علاقہ مکینوں نے سندھ ہائی کورٹ میں برنس روڈ اسٹریٹ بند کرنے کیخلاف درخواست د ائر کررکھی ہے۔ درخواست گزارکے وکیل کا کہنا ہے کہ شام7بجے کے بعد موٹرسائیکل تک گھر نہیں لے جا سکتے‘پندرہ سے بیس ہوٹلوں کی وجہ سے 50ہزارمکینوں کوسزا کیوں دی جارہی ہے۔ علاقہ مکین محمد سلمان کا کہنا تھا کہ جج صاحب نے کیس کی سنوائی کے لیے متاثرین سے حلف نامے طلب کر لیے تھے جو ہم نے جمع کرا دیے ہیں۔برنس روڈ گلی نمبر ایک کے رہائشی نے بتایا کہ ان کی والدہ بیمار رہتی ہیں،انہیں ڈاکٹر کو کلینک پر دکھانے کے لیے ہفتے میں 3 مرتبہ جانا ہوتا ہے، مگر گلیاں بند ہونے سے ان کی والدہ کو اس عمر میںپیدل چل کر فریسکو چوک تک جانا پڑتا ہے۔ جہاں سے رکشہ لے کر وہ ڈاکٹر کے پاس جاتی ہیں، اس سے بلاوجہ رکشے کے 200 روپے روز کا ہمارا خرچہ بڑھ گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے 800 گھروں سے دستخط لے کر وزیر اعلیٰ سندھ، وزیر بلدیات، چیف سیکرٹری، کمشنر کراچی اور دیگر حکام کو درخواستیں دی ہیں، جن میں برنس روڈ فوری طور پر ٹریفک کے لیے کھولنے کی استدعا کی گئی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ سندھ حکومت نے اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا فوڈ اسٹریٹ والوںسے کو ذاتی اختلاف نہیں ہے بلکہ اتنی استدعا ہے یہاں رہنے بسنے والوں کو درپیش مسائل کو دور کیا جائے تاکہ عوامی سہولیات اور تفریح کی غرض سے لگائی گئی یہ رونق کسی کے لیے پریشانی کا باعث نہ بنے۔ ٹریفک فری برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ بنانے والی کمپنی روڈ ٹرپ کے منیجر منصور احمد کا کہنا ہے کہ ہم نے نئی جہت کے ساتھ فوڈ اسٹریٹ قائم کی ہے جس میں عوام بڑی تعداد میں کھانا کھانے آرہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے اور لوگوں کو بڑی تعداد میں روزگار ملا ہے۔ برنس روڈ فو ڈ اسٹریٹ کے افتتاح کے بعد سے اب تک ہر روز سینکڑوں شہری برنس روڈ فوڈ اسٹریٹ کا رخ کرتے ہیں اور مزیدار کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بات غلط ہے کہ ٹریفک بند کرنے سے علاقہ مکینوں کو مشکلات کا سامنا ہے، کیوں کہ اس سے سب کو فائدہ ہو رہا ہے بلکہ یہاں کے رہائشیوں نے بھی یہاں اسٹال لگا لیے ہیں، اور مختلف اشیاء گھر سے پکا کرفروخت کے لئے اسٹال لگالیے ہیں۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سڑک بند ہونے کے بعد اطراف کی گلیوں سے ٹریفک نکل جاتا ہے اور 5 بجے دفاتر کی چھٹی ہوتی ہے،جبکہ ہم 2 گھنٹے بعد 7 بجے ٹریفک بند کرتے ہیں۔