۔1968 میں جب ایوب خان کے خلاف ملک میں تحریک چل رہی تھی تو اس وقت تمام سیاسی جماعتیں تو فعال تھیں، لیکن قوم کو کسی ایمان دار اور جرأت مند قیادت کی ضرورت تھی ایسے میں اصغر خان میدان سیاست میں نمودار ہو گئے 1965 کی جنگ کے ہیرو کے طور پر عوام نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا کراچی میں ان کا اتنا زبردست استقبال ہوا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا بڑا لوگوں کا ازدحام قوم نے نہیں دیکھا تھا مجھے یاد ہے کہ ایک شخص مزار قائد کے گنبد پر بالکل اوپر چلا گیا پتا نہیں کیسے وہ شخص سنگ مرمر جیسے پھسلنے والے پتھر پر چڑھ کر اوپر گیا ہوگا دوسرے دن کے سارے اخبارات میں وہ تصویر شائع ہوئی تھی یہ لوگوں کے جذبات کا اظہار تھا۔ ہمارے کالج میں انگلش کے پروفیسر نے اس بھرپور استقبال کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ایوب خان نے دس سال ملک میں سخت قسم کی آمریت قائم کی ہوئی تھی کسی قسم کی سیاسی آزادی حاصل نہیں تھی اگر جمہوریت بحال رہتی تو متبادل قیادت ابھر کر سامنے آتی لیکن شدید آمرانہ نظام کی وجہ سے کوئی قیادت عوام کی رہنمائی کے لیے ابھر کر نہ آسکی، اب جو تھوڑی سی آزادی ملی اور اس میں جو فرد سامنے آیا عوام دیوانہ وار اس کے پیچھے آگئے۔ اصغر خان ایک ایماندار سرکاری ملازم تھے انہیں سیاست کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور کسی سیاسی جماعت کو چلانے کی جو صلاحیتیں ہونا چاہیے اس سے بھی وہ محروم تھے اس لیے وہ ایوب خان کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکے اور یحییٰ خان کا مارشل لا نافذ ہو گیا۔
دنیا کے جمہوری ممالک میں کئی ادارے ایسے ہوتے ہیں جو قیادت کی تربیت کرتے ہیں اور پھر وہی لوگ ملک کی قیادت کرنے کے لیے عوام کا سامنے آتے ہیں۔ ان میں پہلا ادارہ تو ملک کی طلبہ تنظیمیں ہوتی ہیں تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے انتخابات ہوتے ہیں جو جمہوری انداز میں انتخابات میں حصہ لینے والوں کی تربیت کرتی ہیں آج ہماری سیاسی جماعتوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے دور میں طلبہ سیاست میں متحرک تھے اور اب ملکی سیاست میں متحرک ہیں ایسے لوگ آپ کو ہر جماعت میں مل جائیں گے، ن لیگ کے احسن اقبال اپنے دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور پاکستان تحریک انصاف دیگر بیش تر رہنما حضرات وہ ہیں جنہوں نے طلبہ سیاست سے سیاسی تربیت حاصل کی۔ 1971 سے 1980تک طلبہ تنظیمیں تعلیمی اداروں میں فعال تھیں اور وہاں ہر سال طلبہ یونین کے انتخابات ہوتے تھے جس میں ویسے تو پورے ملک میں اسلامی جمعیت طلبہ کامیاب ہوتی تھی اسی لیے ملک کے کئی نامور سیاستدانوں کا تعلق جمعیت سے رہا ہے ان رہنمائوں میں سید منور حسن مرحوم،حافظ سلمان بٹ مرحوم جو لوگ حیات ہیں ان میں لیاقت بلوچ، امیر العظیم، سراج الحق، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، حافظ نعیم الرحمن، زاہد عسکری اور منعم ظفر و دیگر یہ تو وہ لوگ ہیں جو جمعیت سے منسلک رہے ہیں دیگر تنظیموں سے بھی لوگ اوپر آئے ہیں جیسے این ایس ایف سے وابستہ امیر حیدر کاظمی جو پیپلز پارٹی کے دور میں مرکزی وزیر صحت رہے چکے ہیں۔
طلبہ تنظیموں کے بعد قیادت کی تربیت کا ایک ادارہ ملک کی مزدور تنظیمیں بھی ہیں جو لیبر پالیٹکس سے تربیت حاصل کرکے ملکی سیاست میں اپنا رول ادا کرتی ہیں پی پی پی کے صوبائی وزیر سعید غنی جن کے والد ملکی سطح کے مزدور رہنما تھے، سعید غنی نے اسی ماحول میں آنکھ کھولی ہوگی میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہٹلر ایک زمانے میں دیواروں پر رنگ و روغن کرنے والے مزدوروں کا لیڈر تھا جو بعد میں جرمنی کا حکمران بن گیا، ہمارے ملک میں بھی کئی رہنما ایسے ہیں جو لیبر یونین سے تربیت پاکر ملکی سیاست میں آئے کچھ روز قبل ن لیگ کے سینیٹر مشاہد اللہ کا انتقال ہوا ہے وہ ایک زمانے میں پی آئی اے کی مزدور یونین پیاسی کے صدر تھے اسی طرح مرحوم حافظ سلمان بٹ بھی ریلوے کی پریم یونین کے صدر تھے اس سے پہلے عباس باوزیر نے ریلوے میں پریم یونین بنائی تھی جو بعد میں صوبائی وزیر بھی بنے تھے۔
طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کی نظریاتی وابستگی جماعت اسلامی کے ساتھ تھی اسی طرح مزدوروں کی تنظیم نیشنل لیبر فیڈریشن جس نے پورے ملک میں محنت کشوں کی فیلڈ سے کمیونسٹوں اور بائیں بازو کا صفایا کرکے اسلامی ذہن کے مزدور رہنمائوں کو آگے بڑھایا جو اپنے اپنے اداروں میںکامیاب ہوئے، پی آئی اے میں پیاسی ریلوے میں پریم یونین واپڈا میں شاہین یہ سب مزدور تنظیمیں جماعت اسلامی کی نظریاتی تنظیم نیشنل لیبر فیڈریشن سے وابستہ تھیں طلبہ اور مزدوروں کے بعد ایک تیسرا ادارہ سیاسی قیادت کی تربیت کے واسطے ملک کے بلدیاتی ادارے تھے ان اداروں سے بھی قومی قیادتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں جنرل ضیاء کے دور میں تین مرتبہ اور پرویز مشرف کے دور میں دو بار ملک میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے۔ ان بلدیاتی اداروں سے جو لوگ ملکی سیاست میں ابھر کر سامنے آئے ان میں مظفر ہاشمی جو دو مرتبہ جماعت اسلامی کی طرف سے قومی اسمبلی کے رکن بنے، اخلاق احمد، یونس بارائی، ظہیر اکرم ندیم، آفاق شاہد جو پہلے اورنگی ٹائون سے کونسلر منتخب ہوئے اور پھر بعد میں پی پی پی کی طرف سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ میئر عبدالستار افغانی، محمد حسین محنتی، اسلم مجاہد اور اسی طرح کی بہت سی نامور شخصیات جنہوں نے بلدیاتی اداروں سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور بعد میں وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے پورے ملک میں بلدیاتی اداروں سے جو لوگ قومی و صوبائی سیاست میں آگے آئے ان کی فہرست بہت طویل ہے کیونکہ بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوامی خدمت کا موقع ملتا ہے اور رابطے وسیع ہوتے ہیں۔
قومی سطح پر قیادت کی تربیت کا چوتھا ادارہ خود سیاسی جماعتوں کے اپنے تنظیمی و تربیتی پروگرام ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں وہ اپنے تنظیمی پروگرام رکھتی ہیں ان کے کچھ سیاسی پروگرام بھی ہوتے ہیں ان ہی میں جو دینی جماعتیں ہیں جیسے کہ جماعت اسلامی۔ ان کا ایک بھرپور تنظیمی و تربیتی نٹ ورک ہے پھر جماعت اسلامی کی تنظیم کی مختلف سطحوں کے جو ناظمین اور امرائے جماعت ہوتے ہیں ان کے تربیتی پروگرام الگ ہوتے ہیں کارکنوں کے تربیتی پروگرام الگ ہوتے ہیں ان ہی تربیتی پروگراموں سے تربیت پاکر بہت سی شخصیات قومی اور بین الاقوامی سطح پر ابھر کر آتی ہیں جن میں پرفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی، قاضی حسین احمد کے نام نمایاں ہیں۔
آخر میں ہم یہی نکتہ اُجاگر کرنا چاہیں گے کہ ایک طویل عرصے سے ملک کی طلبہ یونینوں پر جو پابندی لگی ہوئی ہے اسے ہٹایا جائے اور تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینیں بحال کی جائیں تاکہ وہاں سے مخلص اور دیانتدار قیادتیں تربیت پاکر ملک کے سیاسی میدان میں آئیں اور پھر قوم کی خدمت کریں اسی طرح مزدور یونینیں بحال کی جائیں تاکہ مزدور قیادتیں بھی ملک کی خدمت کے لیے آگے آئیں اور اسی طرح بلدیاتی اداروں کے انتخابات جلد از جلد کرائیں جائیں تاکہ خدمت کے میدان میں نوجوان قیادتیں ملکی سطح پر ابھر کر آئیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم تمام سیاسی جماعتوں سے مودبانہ التماس کریں گے وہ اپنی سیاسی جماعتوں کے تربیتی پروگراموں کو بھی جدید تقاضوں کے مطابق بنائیں۔