کراچی (رپورٹ: منیب حسین) تیونس میں 17 دسمبر 2010ء کو پولیس گردی کے خلاف احتجاجاً خود کو آگ لگانے والے محمد بوعزیزی کی موت نے عرب بہار کو جنم دیا۔ اس نوجوان نے خودسوزی کا غلط راستہ اختیار کرکے اپنی قوم کو ظالم نظام کے خلاف جدوجہد کی راہ دکھائی اور یہ آگ دیکھتے ہی دیکھتے تمام عالم عرب میں پھیل گئی۔ تیونس، الجزائر، مراکش، موریتانیا، لیبیا، مصر، سوڈان، جبوتی، یمن، عمان، متحدہ عرب امارات، بحرین، سعودی عرب، کویت، عراق، اردن، فلسطین، شام، لبنان اور اہواز میں مختلف عوامل کے تحت عوام سڑکوں پر آئے۔ اکثر ممالک میں ان انقلابی تحریکوں کو بہ زورِ طاقت دبا دیا گیا۔ کچھ ممالک میں یہ تحریکیں کامیاب ہوئیں، لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد ناکام کردی گئی۔ بعض اب بھی شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہیں۔ کہیں انسانی حقوق کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے، جیسے مصر اور کہیں بدترین خانہ جنگی کی صورت حال ہے، جیسے شام، یمن اور لیبیا۔ غرض عرب دنیا اندرونی بحرانوں میں بری طرح گھری ہوئی ہے اور عرب بہار کی ایک دہائی مکمل ہونے کے بعد بھی حالات میں کسی طرح کا سدھار دیکھنے میں نہیں آرہا ہے۔ ایسے میں دنیا سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ تحریک اب کہاں کھڑی ہے؟ اس کے کیا مثبت اور منفی نتائج برآمد ہوئے؟ شورش زدہ ممالک کیا دوبارہ استحکام کی جانب لوٹ پائیں گے؟ یہی سوال ہم نے پروفیسر مہنا حمد المہنا سے کیے، جن کا تعلق کویت ہے۔ وہ معروف قلم کار، تجزیہ نگار، ماہر سیاسیات اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ جسارت سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’’عربوں اور مسلمانوں کی تاریخ میں عرب بہار تاریخی اور تفصیلات پر مبنی لمحات ہیں۔ اس نے پہلی بار خوف کے بادل چھاٹے اور دماغوں پر مسلط رعب ودہشت کو ختم کرکے اس افسانے کی قلعی کھول دی کہ نظام تبدیل نہیں ہوتے۔ ان تحریکوں کے مثبت نتائج میں سرفہرست یہی ہے کہ عرب اقوام جس حکومتی خوف کا شکار تھیں، اس سے باہر آگئیں۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ عالمی نظام مکمل طور پر عرب حکومتوں کا پشت بان اور مددگار ہے۔ عرب اقوام نے جان لیا کہ ان حکومتوں کے درمیان ظاہری اختلافات اور علانیہ تنازعات دکھاوا ہیں۔ حقیقت میں یہ سب ایک دوسرے کے معاون ہیں، جو اپنے ہی عوام کے خلاف ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی واضح ہوگیا کہ بشارالاسد حکومت کی امریکا اور اسرائیل سے دشمنی ایک افسانہ ہے۔ امریکا اصل میں اسد انتظامیہ کا نگہبان ہے۔ عرب بہار کی تحریک اپنی اساس میں صاف شفاف تھیں، لیکن پھر ان میں عرب حکومتوں اور علاقائی وبین الاقوامی خفیہ اداروں نے مداخلت کرکے مقامی افراد کو خریدا اور ان تحریکوں کو برباد کردیا۔ جہاں تک تنازعات کے شکار عرب ممالک میں دوبارہ امن واستحکام کا سوال ہے، تو بنیادی طور پر اس کا جواب اور حل عوام کے پاس ہے، لیکن امت میں فی الحال اس درکار شعور کی کمی ہے، جو اسے پیچھے رہ جانے اور آمریت پر راضی سے نجات دلا سکے‘‘۔ فلسطینی سماجی کارکن ادہم ابوسلمیہ بین الاقوامی تعلقات میں ڈاکٹریٹ کررہے ہیں۔ عرب دنیا کے حوالے سے مختلف ذرائع ابلاغ میں اظہارِ خیال کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم نے عرب بہار کے حوالے سے ان سے بھی گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بہارِ عرب حقیقت میں عرب دنیا کے حال اور خطے میں موجود سماجی دباؤ اور نظاموں کی ناکامی کی درست ترجمانی تھی کہ جس کے باعث معاشی جمود نے لوگوں کو سڑکوں پر آنے اور اپنے بنیادی انسانی حقوق مانگنے پر مجبور کیا۔ میں نہیں سمجھتا کہ بہارِ عرب ناکام رہی، تاہم میرا خیال ہے کہ یہ تحریک عوام میں سیاسی شعور پختہ ہونے کے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ عرب عوام بول رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے مؤثر انداز میں اظہارِ خیال کررہے ہیں، اور یہ سب عرب حکومتوں پر حقیقی دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے خاموشی کے وہ تالے توڑ دیے ہیں، جو بہارِ عرب سے قبل ان کی زبانوں پر لگائے گئے تھے۔ ٹھیک ہے کہ ان تحریکوں نے اپنے اہداف حاصل نہیں کیے، تاہم اس نے خطے کو ایک نئے مرحلے میں پہنچا دیا ہے، جس کا عنوان ’’عوام ظلم اور ناکامی کسی صورت قبول نہیں کریں گے‘‘۔ البتہ اس کے کچھ منفی نتائج بھی برآمد ہوئے، جن میں اہم ترین عرب بہار کے دوران بعض ممالک میں انقلابیوں کا افواج پر اعتبار کرنا ہے، حالاں کہ سب جانتے ہیں کہ یہ فوجیں ان ظالم حکومتوں کا اہم ترین آلہ اور ڈھال ہیں۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کی سستی بھی سامنے آئی کہ انہوں نے نوجوانوں کی ان تحریکوں سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ شام سے تعلق رکھنے والے صحافی، ڈاکٹر جہاد عدلہ کا جسارت سے گفتگو میں اس مسئلے پر کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہار عرب اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی، جن کے لیے عرب نوجوان سڑکوں پر آئے تھے۔ بڑے پیمانے پر قربانیوں، شہادتوں، گرفتاریوں اور ہجرت کے باوجود یہ تحریکیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس کی بڑی وجہ عرب خطے کی اسلامی شناخت ہے، جس کے باعث بین الاقوامی طاقتوں نے ان تحریکوں کی حمایت نہیں کی۔ جہاں تک بہار عرب کے مستقبل کا تعلق ہے، ان تمام نشیب و فراز کے ساتھ اس کے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اثرات ضرور سامنے آئیں گے۔ مقامی طور پر تو یہ کہ سیاسی تنظیم سازی اور صف بندی بڑے پیمانے پر دیکھنے میں آئے گی، جو عالم عرب کے مستقبل کی منطقی سوچ کو پیش کرے گی۔