واشنگٹن ؍ تہران (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی خبر رساں ایجنسی بلومبرگ کے مطابق حالیہ چند ہفتوں کے دوران چین کو ایرانی تیل کی ترسیل میں غیر معمولی حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ چین دنیا بھر میں تیل درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور تہران پر عائد امریکی پابندیوں کے باوجود چین ایران سے یومیہ 10 لاکھ بیرل خام تیل اور ایندھن کا تیل خریدتا ہے۔ بلومبرگ کے مطابق تہران کی جانب سے پیش کی جانے والی کم قیمتوں نے اس کے تیل کو چینی خریداروں کے لیے پر کشش بنا دیا ہے۔ بلومبرگ کے مطابق چین کو بھیجا جانے والا ایرانی تیل براہ راست خلیج کے راستے منتقل ہوتا ہے یا پھر اس کا ذریعہ تبدیل کر دیا جاتا ہے گویا کہ وہ مشرق وسطیٰ یا ملائیشیا سے آ رہا ہے۔ ایران کا زیادہ تر تیل نجی تجارتی کمپنیوں کی جانب سے خریدا جاتا ہے، کیوں کہ ریاست کی ملکیت آئل ریفائنریز امریکی پابندیوں کے سبب خود کو ایران کے ساتھ لین دین سے دور رکھتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب خام تیل (برنٹ) کی فی بیرل قیمت 70 ڈالر کے قریب پہنچ رہی ہے، ایرانی تیل کی برآمدات میں مسلسل اضافہ عالمی منڈی کا توازن برقرار رکھنے کی کوششوں میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ ایران جیسی جگہوں سے تیل کی ترسیل میں اضافے کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ عالمی منڈی کمزور پڑے گی اور آیندہ جون یا جولائی تک ترجیحی تیل مثلا مغربی افریقا، ناروے اور برازیل کے خام تیل کی فروخت مشکل ہو جائے گی۔ اُدھر امریکی سینٹ کوم کے کمانڈر جنرل کینتھ ایف میکنزی کا کہنا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ جنگ کے خواہاں نہیں، تاہم اگر ضرورت پڑی تو ہم جوابی حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لبنان میں ایل بی سی ٹیلی وژن سے انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ واشنگٹن گزشتہ 2 برس سے ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، تا ہم جوبائیڈن انتظامیہ اس حکمت عملی کا جائزہ لے رہی ہے۔ انہوں نے یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر ڈرون حملوں کی مذمت کی اور مزید کہا کہ قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد انتقامی دھمکیوں کے ردعمل میں امریکی افواج ہر طرح کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔