ہمارے ملک میں سیاستدانوں کو اپنے آپ کو میڈیا میں زیر بحث رکھنے کا ایک گھٹیا طریقہ ہاتھ میں آگیا ہے کہ متفقہ سیاسی رہنمائوں جیسے قائد اعظم محمد علی جناح یا علامہ اقبال کے خلاف ہرزہ سرائی کی جائے تاکہ اس پر پاکستانی عوام کا جذباتی ردعمل سامنے آئے اور وہ صاحب کچھ دنوں کے لیے میڈیا کے اندر بحث مباحثہ کا عنوان بن جائیں مثلاً جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر ہے ایک زمانے میں ایم کیو ایم نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ پاکستان کسی کے خوابوں کی تعبیر نہیں اور یہ کہ پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔ پاکستان لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ بعض بائیں بازو کے نظریات کے حامل شخصیات اکثر یہ کہتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ قائد اعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، یہ تو ملک بننے کے بعد اسلام پسندوں نے پوری قوت سے یہ پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ بہر حال یہ ایک غیر ضروری اور لایعنی بحث ہے ہمارا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف نے ریاست کے خلاف جو بیان دیا ہے جس میں یہ کہا ہے کہ اگر مریم نواز کو کچھ ہوا تو ہم پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگائیں گے جیسا کہ آصف زرداری نے بے نظیر کے قتل کے موقع پر کہا تھا کہ بعض لوگ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نہ کھپے لیکن ہم اب بھی یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کھپے پاکستان کھپے۔
کچھ عرصہ پہلے ن لیگ کے ایاز صادق نے بھی پاکستانی فوج کے حوالے سے بیان دیا تھا جس پر انہوں نے معذرت بھی نہیں کی اور اب جاوید لطیف رکن قومی اسمبلی نے ایک متنازع بیان دے کر ریاست کے خلاف باغیانہ روش اختیار کی ہے۔ ویسے تو بے نظیر بھٹو اور مریم نواز میں بہت فرق ہے بے نظیر ایک ایسے شخص کی بیٹی ہیں جس نے موت کو گلے لگالیا لیکن کسی کے سامنے سر نہیں جھکایا اور مریم نواز اس شخص کی بیٹی ہیں جس نے موت کے خوف سے اسٹیبلشمنٹ کے آگے سر جھکا کر این آر او حاصل کیا اور جان بچا کر ملک سے باہر چلے گئے۔ مریم نواز کتنا سچ بولتی ہیں اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے ان کا ایک بیان آیا تھا کہ میری تو لندن میں کیا پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں ہے اور اب وہ جائداد میں اپنا حصہ لینے کے لیے لندن جانے کے لیے تڑپ رہی ہیں لیکن عمران خان انہیں اجازت نہیں دے رہے ہیں، برطانیہ کا قانون ہے کہ جائداد میں حصہ لینے کے لیے خود بہ نفس نفیس موجود ہونا ضروری ہوتا ہے اسی لیے جب وہ عمران خان کے خلاف بات کرتی ہیں تو ان کے لہجے میں تلخی نمایاں ہوتی ہے۔
ہم بات کررہے تھے جاوید لطیف کے ریاست کے خلاف متنازع اخباری بیان کی۔ اس بیان پر آئین کے آٹیکل 6کے تحت غداری کا مقدمہ بننا چاہیے اسی طرح کا مقدمہ ایاز صادق کے خلاف بھی بننا چاہیے تھا، لیکن ہمارے یہاں پتا نہیں کیوں ایسی اوچھی حرکتوں پر حکومت بھی کوئی ایکشن نہیں لیتی اور نہ ہماری عدلیہ ہی کوئی ازخود نوٹس لیتی ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اور ثاقب نثار تو آئے دن ملک کے کئی حساس موضوعات پر سو موٹو لیتے تھے۔ ہمارے موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد بھی بعض موقعوں پر از خود نوٹس لیتے ہوئے نظر آتے ہیں لہٰذا اگر وہ جاوید لطیف کے بیان پر بھی آرٹیکل چھ کے تحت از خود نوٹس لیں تو آئندہ کے لیے لوگ محتاط ہو جائیں گے۔ بعض دفعہ ہماری سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کرتے ہیں کہ مریم نواز کی نظروں میں اپنے آپ کو انتہائی وفادار ثابت کرنے کے لیے بھی ن لیگ کے کارکن اپنی حدود کو کراس کر جاتے ہیں ہو سکتا ہے جاوید لطیف نے اسی تناظر میں ایسا بیان دیا ہو۔
اس اہم مسئلے پر ہم پمرا کو بھی متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایسے بیانات پر نوٹس لیتے ہوئے تمام چینلوں پر یہ پابندی لگائیں کہ وہ ایسے لوگوں کو جو ریاست پاکستان کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں ان کو اپنے ٹاک شوز میں نہ بلائیں اور جو چینل اس حکم کی خلاف ورزی کریں گے ان کے لائسنس منسوخ کردیے جائیں گے ہمیں امید ہے پمرا اس اہم قومی مسئلے کی طرف ضرور توجہ دے گا لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں چینل مالکان سے بھی یہ کہنا ہے کہ وہ خود بھی کچھ حب الوطنی کا ثبوت دیں اور از خود ایسے لوگوں کو اپنے چینل پر نہ بلائیں۔ لیکن اگر پمرا اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا اور مٹی پائو والی پالیسی اپناتا ہے اور چینل مالکان بھی نہیں چاہتے کہ بیٹھے بٹھائے کسی سیاسی جماعت سے بلاوجہ کا پنگا لیا جائے تو کم از کم ٹاک شوز والے اینکرز حضرات ازخود اپنے اوپر پابندی لگالیں کے ایسے باغیانہ سوچ رکھنے والے سیاسی رہنمائوں کو اپنے ٹاک شوز میں نہیں بلائیں گے۔