کراچی (رپورٹ:حماد حسین)گوادر جلد عالمی ترقی یافتہ شہروں میں شامل ہوگا، کاروبار ، ملازمتوں کے مواقع بڑھ گئے ہیں، پائیدار اور مستحکم بنیادوں پر اہلیانِ گوادر کی شراکت داری کے ساتھ ایک خوشحال گوادر کے خواب کو حقیقت میںبدلنا چاہتے ہیں۔ گوادر میں پانی کی فراہمی آج بھی باران رحمت کے برسنے پر ہے۔ سیوریج کا کوئی نظام نہیںگوادر میں کوئی ایسا اسپتال قائم نہیں ہے جہاں یہاں کے شہریوں کا علاج معالجہ کیا جاسکے۔ گوادر کے لیے اب تک صحت و صفائی، تعلیم یا روزگارکے لیے کوئی پیکج سامنے نہیں آیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب لوگ یہ سمجھنے لگ گئے ہیںکہ یہ عالمی یاملکی گماشتہ سرمایہ داروں کی اسکیم ہے جس کا تعلق مقامی لوگوں سے نہیں ہے۔ان خیالات کا اظہار بلو چستان نیشنل پارٹی(عوامی) کے مرکزی سیکرٹری ہیومن رائٹس ایڈووکیٹ سعید فیض، جماعت اسلامی ضلع گوادرکے سابق امیراور معروف سماجی رہنما سعیداحمد بلوچ اور گوادر پریس کلب کے نائب صدر نور محسن نے نمائندہ جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے مرکزی سیکرٹری ہیومن رائٹس ایڈووکیٹ سعید فیض کا کہنا تھا کہ گوادر میگا پروجیکٹ ،سی پیک و دیگر ترقیاتی اقدامات میں جو رقم استعمال کی گئی ہے اس کی تفصیلات پبلک نہیں ہوئی ہیں اور چین پاکستان کے اس مصروف کاروباری منصوبے پر جو رقم خرچ کی گئی ہے اس کے اثرات بلوچستان میں کہیں نظر نہیںآتے جبکہ دوسری طرف گوادرکے35 ہزار ایکڑ اراضیات کو رہن کے طور یعنی ضمانت کے طور پر گروی رکھ دی گئی ہے۔ سی پیک کے حوالے سے مقامی لوگوں کے کافی سارے خدشات و تحفظات ہیں۔ سب سے اہم خدشہ ڈیمو گرافک چینج کا ہے یعنی آبادی کی تناسب کا سوال ہے۔ دوسری وجہ برسوں سے جاری مقامی لوگوں کے کاروبار کی تباہی ہے۔ مثلاً ماہی گیری صنعت ، کشتی سازی وغیرہ۔ اصل بات یہ ہے کہ گوادر جہاں سے سی پیک کے کاروبار کاآغاز ہوا چاہتا ہے۔ مگر اب تک کی خبر یہ ہے کہ یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے اس فنڈ سے کوئی خاص قابل ذکر عوامی کام نہیں ہوا ہے۔ مثلاً اب تک صحت و صفائی ، تعلیم یا روز گارکے لیے کوئی پیکج سامنے نہیں آیا۔ حتیٰ کہ شپنگ اینڈ کلیئرنگ ایجنٹس اکثر و بیشتر کہتے رہتے ہیں کہ جہاز آنے پر ان کو خاطر خواہ موقع نہیں مل سکے گا ۔ اصل بات یہ ہے کہ سی پیک پروجیکٹ ویسے بھی گومگوںکا شکار ہے۔ مغربی ریاستوں کی طرف سے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت پر اعتراضات پیداہو گئے ہیں۔ مزید یہ کہ سرحدی کاروبار کو بھی قانونی دائرے میں نہیں لایا گیا اس لیے معاشی اضطراب کی کیفیت ہے۔ شرو ع میں لوگ اس پروجیکٹ کے حق میں تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب لوگ یہ سمجھے لگ گئے ہیںکہ یہ عالمی یا ملکی گماشتہ سرمایہ داروں کی اسکیم ہے جس کا تعلق مقامی لوگوں سے نہیں ہے۔جماعت اسلامی ضلع گوادرکے سابق امیراور معروف سماجی رہنما سعیداحمد بلوچ کا کہنا تھا کہ گوادر ، مکران ڈویژن کا ایک خوبصورت اور پرامن ساحلی شہرہے۔ سی پیک کی بدولت شہر گوادر کا مستقبل تابناک نظر آتا ہے، خوبصورت محلِ وقوع کی وجہ سے بہترین سیاحتی مقامات اس شہر کے روشن مستقبل کی نوید ہیں۔امید ہے کہ آئندہ آنے والے کچھ سالوں میں گوادر نا صرف مقامی ، بلکہ بین الاقوامی طور پر ترقی یافتہ شہروں کی صف میں شامل ہوکر ملک کی معیشت کو مضبوط بنا سکتی ہے۔لیکن جہاں اس ترقی سے مقامی لوگوں کے لیے کاروبار اور ملازمتیں ملنے کے مواقع میں اضافہ ہوا ہے وہیں بہتر پلاننگ نہ ہونے کے سبب مزدور اور ماہی گیر طبقے کے لوگوں پر ان کے کاروبار پر اس ترقی کے منفی اثرات پڑے ہیں۔ آئے روز سیکورٹی کے نام پر سمندر جانے پر ماہی گیروں پہ پابندی ،سڑکوں کی ازسر نو تعمیر کے لیے گھروں اور دکانوں کی بغیر ادائیگی کے مسماری یا ان کا کچھ حصہ گرانا اور دیگر بہت ساری وجوہات ہیں اگر ان کی روک تھام کے لیے بہترین پلاننگ نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں گوادر کے مقامی باشندے شدید معاشی بحران کا شکار ہوسکتے ہیں۔ سی پیک کی بدولت گوادر کی ظاہری خوبصورتی میں یقیناً کچھ اضافہ ہوگیا ہے۔ گوادر ایکسپو سینٹر، میرین ڈرائیو کی خوبصورتی، سن سیٹ پارک اور کرکٹ اسٹیڈیم یقیناً چند مثبت چیزیں ہیں لیکن کیا گوادر کے مقامی افراد کو انہی چیزوں کی ضرورت تھی اور ان خوبصورت جگہوں پر جانے کے لیے جب مقامی افراد کو فورسز کے سامنے اپنی شناخت بتانا پڑتی ہے تو اکثر یہ سوچ کر آگے چلتے ہیں کہ ابھرتے اور ڈوبتے سورج کا نظارہ تو ہم پہلے بھی کرتے تھے ۔یہ ہمارا پکنک پوائنٹ تھا۔ ان سب کے بعد مقامی افراد کی ذہنوں میں آتا ہے کہ کیا گوادر کے وارث اب ہم نہیں رہے؟؟، کیا ان کے لیے ترقی یہی ہے کہ ان کے شہر میں غیر مقامی غیر ملکی افراد آکر انجوائے کریں۔؟؟ جب کہ وہ خود زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم زندگی گزارہے ہوں؟۔ میگا سٹی کہلانے والے گوادر کے دوسرے رخ کو بھی دیکھیں تو پتا چلے کہ کیا ہورہا ہے مقامی افراد کیسے اپنی زندگیاں گزاررہے ہیں گوادر میں پانی کی فراہمی آج بھی باران رحمت کے برسنے پر ہے۔میرین ڈرائیو کو چھوڑ کر شہر کے اندر آجائیں تو ہر گلی میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نظر آئیں گے۔بارش ہو تو نکاسی آب کا کوئی فی الفور انتظام نہیں گلیاں گندے نالوں کا منظر پیش کریں گی۔ شعبہ صحت کے بارے میں کیا کہا جائے، گوادر میں کوئی ایسا اسپتال قائم نہیں ہے جہاں یہا ں کے شہریوں کا علاج معالجہ کیا جاسکے۔ یہاں کے لوگ علاج کے لیے کراچی جاتے ہیں یا لیبارٹری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے سے ٹیسٹ کے لیے تربت کی طرف رخ کرتا دیکھیں گے۔ ترقی کے نام پر قومی تہواروں کو بھی کچھ اس طرح سے منایاجاتا ہے کہ گوادر کے مقامی لوگ ہی نہیں بلکہ غیر مقامی لوگ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ بلوچوں کو اپنا کلچر سنبھالنا چاہیے کیونکہ یہ ترقی نہیں بلکہ بے حیائی کا طوفان ہے۔تعلیم کے بجائے یہاں پروگرامز انجوائے منٹ اور سیلیبریشن کلچر فروغ دیا جاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جسے کوئی محب وطن ترقی کا نام نہیں دے سکتا۔حقیقت دیکھی جائے تو اس نام نہاد ترقی کے مثبت اثرات مقامی افراد کے لیے انتہائی کم نظر آرہے ہیں۔جناب ہم ترقی چاہتے ہیں کہ پائیدار اور مستحکم بنیادوں پراہلیانِ گوادر کی شراکت داری کے ساتھ ایک خوشحال گوادر کے خواب کو حقیقت میںبدلنا چاہتے ہیں ۔ گوادر پریس کلب کے نائب صدر نور محسن کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) کے حوالے سے اس قدر اعلانات، دعوے، بیانات، تجزیے اور اقدامات سامنے آ چکے ہیں کہ سی پیک کے حوالے سے چین نہ سہی پاکستان کی ہر صوبے کے لوگوں کے دل و دماغ امیدوں ، توقعات اور خدشات سے لبریز ھوچْکے ہیں اور اگر یہ بات گوادر میں بیٹھ کر کی جائے تو یہاں امید اور خدشات کئی گنا زیادہ ہونگے۔ کیونکہ گوادر ہی وہ مقام ہے جو اقتصادی راہداری کا ایک طرف سے نقطہ آغاز اور دوسری طرف سے نقطہ اختتام ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ چراغ تلے اندھیرا ھے ، گوادر جس کے تینوں طرف نیلگوں پانی (سمندر) ہے لیکن گوادر والے آج بھی پانی کے بوند کو ترستے ہیں، آج بھی گوادر کے شہریوں کو 20/25 دن کے بعد ایک گھنٹہ آدھی انچ کے پائپ سے مضرِ صحت پانی دیا جاتا ہے آج بھی گوادر کی قدیم آبادی کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہے۔ گوادر میں کوئی ایسا اسپتال نہیں جہاں کسی مریض کا درست علاج ہو ۔ گوادر میں سیوریج کا کوئی نظام نہیں، اربوں ڈالر کمانے والے شہر میں کوئی صنعت نہیں جہاں کم از کم 10 افراد برسرِ روزگار ھوں ، ہاں سی پیک کے ساتھ گوادر اور گوادر کے ساتھ سی پیک کا نام اس قدر لیا جا چکا ہے کہ اب دونوں کو الگ کرنا مشکل و ناممکن محسوس ہوتا ہے۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ دونوں الگ حقیقتیں ہیں اور دونوں کی حیثیت، ضروریات اور جذیات کا الگ الگ جائزہ لیکر اور جداگانہ مقام دے کر ہی ان کے ساتھ انصاف کیا جا سکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ کوئی بھی میگا منصوبے کے کچھ نقصانات ضرور ھونگے ، مثال کے طور پر گوادر میں سی پیک منصوبے کی آمد سے قبل چوری، ڈاکا، کلاشنکوف کلچر، قتل، تعصب، اور بہت سارے مسئلے جو آج ہیں وہ نہ تھے، خوف و ڈر کا ماحول نہ تھا، ماھی گیر اور دوسرے کاروباری حضرات پریشان نہ تھے، جہاں موجودہ ڈیپ سی پورٹ بنائی گئی ہے یہ جگہ ماھی گیروں کی شکارگاہ اور مچھلیوں کے افزائش نسل کی جگہ تھی جو گوادر کے ماھی گیروں نے بنائی اور بغیر کسی چون و چراں ( مزاحمت و معاوضے) اس امید کے ساتھ حکومت کے حوالے کردی کہ آنے والی ترقی و سی پیک سے ان کا اور ان کی آنے والی نسلوں کی تقدیر بدل جائیگی لیکن اس کے بدلے میں گوادر والوں کو اوپر بیان کی گئی تشنگی، بیروزگاری اذیت اور پریشانیاں ملی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں ایک پروگرام میں شریک تھا جوکہ وفاق اور حکومتِ بلوچستان کے محکمہ پلاننگ و ڈیولپمنٹ کے زیر اھتمام بعنوان ’’سی پیک گوادر، بلوچستان اور پاکستان ‘‘ رکھا گیا تھا جس میں گوادر سمیت علاقائی مسائل، انسانی بنیادی حقوق سمت سی پیک کے اہمیت اور فوائد کے بارے میں عوامی منتخب نمائندوں، معززین شہر اور صحافیوں نے شرکت کرکے سیر حاصل بحث کی، اسی پروگرام میں چائنہ اوورسیز ہولڈنگ کمپنی کی ایک اھم شخصیت نے گوادر کی مسائل پانی، بجلی، شہر کی سڑکیں، سیوریج، تعلیم، صحت اور دیگر اہم مسائل و معاملات کے حوالے سے کہا کہ ھم (یعنی چائنیز) ان تمام مسائل پر زیادہ سے زیادہ 6 ماہ میں مکمل قابو پالینگے لیکن ( اْن کے بقول) ہمیں ان مسائل کی خاتمے کے لیے نہیں چھوڑا جارہاہے۔ کون ہیں وہ جوکہ گوادر کے مسائل کا حل نہیں چاھتے؟۔ میرے خیال میں سی پیک ایک موقع کا نام ہے جوکہ بین الاقوامی سطح پر یہ موقع نائن الیون (9/11) کے بعد کے عالمی حالات ، پاکستان کی اپنے پرانے حلیف امریکا سے دوری اور چائنا کی ابھرتی ہوئی معاشی حیثیت کی وجہ سے پیدا ہوا۔ علاقائی سطح پر یہ موقع پاکستان کی تیزی سے پیدا ہوتی ہوئی تنہائی اور اس کی مخصوص جیو اسٹریجک حالات کی وجہ سے ممکن ہوا اور ملکی سطح پر پاکستان کا جغرافیہ اور خاص طور پر دو ’’گ‘‘ یعنی شمال میں گلگت اور جنوب میں گوادر اس کے لیے اہم ثابت ہوئے۔ سی پیک کے ذریعے چین کو اپنی معیشت کو مزید مستحکم کرنے، اپنے کم ترقی یافتہ مغربی خطے کو صنعتی طور پر آگے لانے اور اپنی مصنوعات کی برآمد اور تیل و گیس کی درآمد کو زیادہ آسان اور موثر بنانے کا موقع مل رہا ہے ۔ اس کے لیے مشرق وسطیٰ اور افریقا سمیت یورپ تک رسائی کے نئے امکانات کم خرچ کے ذریعے ممکن ہو رہے ہیں۔ اس طرح پاکستان کے لیے بھی سی پیک نئے امکانات کا ایک قوس قزح لے کر آیا ہے۔بلوچستان اور خاص طور پر گوادر کے لیے بھی سی پیک بہت سارے مواقع اور امکانات سے بھرپور ہے۔ لیکن حکومت اور حکومتی اداروں کی نیک نیتی یہاں کے عوام کے لیے شرط ہے، یہاں بھی تجارت، سرمایہ کاری، کاروبار، ملازمت اور ترقی کے بے شمار مواقع موجود ہونگے مگر حکومت کی سرپرستی، تعلیمی، اور ٹیکنیکل اداروں کی موجودگی شرط اور سرکار کی ذمے داری ہے جو آج تک گوادر میں ناپید ہیں، بنیادی امر یہ ہے کہ ہم یعنی یہاں کے رہنے والے لوگ ان مواقع سے مستفید ہونے کے لیے کس قدر آمادہ ، تیار اور آزاد ہونگے۔ہمیں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ترقی اور آگے بڑھنے کے لیے سب سے اہم اور بنیادی وسیلہ انسانی وسیلہ ہے۔ قدرتی وسائل اس وقت تک مدد گار اور کار آمد ثابت نہیں ہوتے جب تک ان کو استعمال میں لانے کے لیے انسانی وسائل موجود نہ ہوں۔ بدقسمتی سے انسانی وسائل کی دستیابی اور ترقی کے لحاظ سے بلوچستان کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین صوبوں میں ہوتا ہے، اس لحاظ سے ہماری ترجیحات ایک صوبہ یا ایک قوم کی حیثیت سے غیر واضح ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی کا اہم ترین ذریعہ تعلیم و تربیت ہے تعلیم و تربیت کے شعبے میں بلوچستان کی جو حالت ہے وہ کسی بھی حوالے سے قابلِ تعریف اور تسلی بخش نہیں ہے۔سی پیک سے پیدا ہونے والے خدشات کے خاتمے ، مواقع سے فائدہ اٹھانے اور ظاہر و پوشیدہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بہتر منصوبہ بندی ، سیاسی سطح پر زیادہ سے زیادہ دور اندیشی اور قوت ارادی اور عوامی سطح پر اعتماد و یکجہتی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے لیے برداشت اور حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ آنے والے دنوں کے لیے آنے والی نسل کی تیاری ایک قومی تحریک و جنبش کی متقاضی ہے جس کا احساس سب سے پہلے ہمارے قومی اکابرین اور سیاسی جماعتوں کے دلوں میں پیدا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح نوجوان جو ہمارا مستقبل ہیں ان کا مستقبل بھی محض نعروں، اعلانات یا تقاریر سے محفوظ نہیں بنایا جا سکتا بلکہ اس کے لیے ان کو علم و ہنر سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے جس کی ذمے داری ریاست کے ساتھ ساتھ خود نوجوانوں پر بھی عاید ہوتی ہے۔ ہمیں یعنی نوجوانوں کو دوسروں پر ذمے داری عاید کرنے کی عادت ترک کرنا اور ہر حال میں اپنی تعلیمی قابلیت اور استبعداد علم و ہنر بڑھانے کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ زندگی اور وقت ہر انسان اور قوم کے لیے مواقع لے کر آتی ھے مگر ان مواقع سے صرف وہی افراد یا اقوام فائدہ اٹھاتی ہیں جو ان کے لیے ہر طرح سے تیار ہوں ۔