کراچی(اسٹاف رپورٹر)اسلام آباد سے لاپتا ہونے والی 14سالہ عاصمہ کے والد نے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ بیٹی کو بازیاب کرایا جائے۔
اسلام آباد سے لاپتاہونے والی 14سالہ عاصمہ کے والد محمد شمال نے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جبکہ بچوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی وجہ بننے والے زینب زیادتی کیس کی زینب انصاری کے والد امین انصاری نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ 40روز قبل اسلام آباد سے لاپتاہونے والی عاصمہ شمال کو بازیاب کرایا جائے۔
گزشتہ روزکراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عاصمہ شمال کے والد کا کہنا تھا کہ اس کی کم عمر بچی کو اسلام آباد سے اغوا کرکے کراچی لایا گیا اور اسلام آباد پولیس نے 40روز گزرنے کے باوجود متاثرہ خاندان کے بیان تک قلمبند نہیں کیے الٹا مغوی کے بھائی کو تھانے بلاکر دھمکایا جارہا ہے۔
اسلام آباد پولیس بچی کو اغوا کرنے والوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور کیس ختم کرنے کے لیے دباوڈالتے ہوئے کراچی آمدورفت کے لیے ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے کا خرچہ مانگ رہی ہے۔
پریس کانفرنس میں روشنی ہیلپ لائن کے علی شان نے کیس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ عاصمہ 4فروری کو اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلی اور لاپتاہوگئی، عاصمہ کے والد محمد شمال ملازمت کے لیے سعودی عرب میں مقیم تھے جو 15فروری کو پاکستان پہنچے، بچی کی گمشدگی کی اطلاع 3 گھنٹوں بعد ہی رمنا تھانے میں درج کرائی گئی لیکن پولیس نے تاخیر سے ایف آئی آر درج کی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔
اس دوران عاصمہ شمال کے والد اپنے طو رپر کراچی پہنچے جہاں انھیں معلوم ہوا کہ ان کی سالی کے بیٹے نے ان کی کم سن بچی کو اغوا کرلیا ہے جس پر انھوں نے اسلام آباد پولیس کو مطلع کیا اور کراچی سے بچی کو بازیاب کرانے کی اپیل کی لیکن اسلام آباد پولیس نے بچی کے نکاح اور بیان حلفی کے کاغذات دکھاتے ہوئے کہا کہ بچی اپنی مرضی سے گئی اور اس نے نکاح کرلیا ہے اب کیس خارج کرنا ہوگا۔
زینب انصاری کے والد امین انصاری کا کہنا تھا کہ میں محمد شمال کی بیٹی عاصمہ کے اغوا کی مذمت کرتا ہوں عاصمہ کی بازیابی تک متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔ اغوا کے 10 روز بعد پولیس کے علم میں آچکا تھا کہ لڑکی کو اغوا کرکے کراچی رکھا گیا۔
انھوں نے کہا کہ زینب الرٹ ایکٹ 2020 کے نفاذ کے باوجود بچوں کے تحفظ کے مقدمات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا،ہیلپ لائن ٹرسٹ کے قانونی مشیر نوید احمد نے کہا کہ مغوی لڑکی کا بیان حلفی اور نکاح نامہ جھوٹ پر مبنی ہے بیان حلفی میں لڑکی کی عمر تقریباً 18سال اور نکاح نامہ میں 18سال درج ہے نکاح نامہ پرگواہان کے نام کے بجائے فون نمبر درج کیا گیا۔
جبکہ لڑکی کے گواہ کو بھی 6تاریخ کو ہونے والے نکاح میں لڑکی کا وکیل دکھایا گیا حالانکہ وہ 15فروری کو وطن پہنچے۔حالانکہ اب زینب الرٹ ایکٹ آچکا ہے جس کے تحت فوری ایف آئی آر اور تفتیش ضروری ہے۔ انھوں نے بتایا کہ نکاح نامہ میں لڑکے کا پتہ بہادرآباد کا بیکن ہاوس اسکول درج کیا گیا جو اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے۔