ن لیگ جیت گئی اور پی پی پی ہارگئی

1512

ایک جنگ اگر پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان چل رہی ہے تو دوسری جنگ پی ڈی ایم کے اندر ن لیگ بمقابلہ پی پی پی چل رہی ہے۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان مولانا فضل الرحمن سینڈوچ بنے ہوئے ہیں۔ ویسے تو اس اتحاد میں گیارہ جماعتیں ہیں لیکن عملاً تو تین چار جماعتیں ہی متحرک ہیں چوتھی سیاسی جماعت اے این پی ہے جو اپنا سیاسی وزن کبھی ن لیگ کے پلڑے میں ڈالتی ہے اور کبھی پی پی پی کا ساتھ دیتی ہے۔ اب تک کی پی ڈی ایم کی کارکردگی دیکھی جائے تو آصف زرداری کا سیاسی بیانیہ ہی پوری پی ڈی ایم کے اندر غالب رہا ہے۔ دوسرے نمبر پر ن لیگ کا موقف رہا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن کے سیاسی موقف کو وہ پزیرائی نہیں ملی جیسا کے ملنا چاہیے تھی۔ مولانا کا شروع ہی سے جارحانہ اسٹائل تھا وہ چاہتے تھے کہ موجودہ حکومت کے خلاف بھرپور مہم اس طرح چلائی جائے کہ پہلے فراڈ الیکشن کو بنیاد بنا کر تمام اسمبلیوں سے مستعفی ہوا جائے اور اس کے بعد زبردست لانگ مارچ کر کے دھرنا دیا جائے اور اسلام آباد میں اس وقت تک بیٹھا جائے جب تک عمران خان کو واپس گھر نہ بھیج دیا جائے۔ مولانا کے اس موقف کو پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ اس میں سب سے زیادہ سیاسی نقصان پی پی پی کا ہورہا تھا کہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی تعداد سب سے زیادہ ہونے کے علاوہ ایک صوبے کی حکومت بھی اس کے پاس تھی دوسرے نمبر پر ن لیگ کے ارکان کی تعداد ہے تیسرے نمبر پر جے یو آئی کے منتخب ارکان کی تعداد ہے اس لیے سب سے کم نقصان جے یو آئی کا ہوتا۔
پی ڈی ایم کے اجلاس میں یہ طے ہوا کہ استعفوں کا آپشن سب سے آخر میں رکھا جائے پہلے لانگ مارچ اور دھرنا دیا جائے اور یہ کہ ضمنی انتخاب اور سینیٹ کے انتخاب میں بھر پور حصہ لیا جائے جبکہ مولانا کی رائے تھی کہ ضمنی اور سینیٹ کے انتخاب کا بائیکاٹ کردیا جائے اس سے حکومت کو زبردست دھچکا لگے گا لیکن یہاں بھی مولانا کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا اور پوری پی ڈی ایم نے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا اور زبردست کامیابی حاصل کی سیالکوٹ ڈسکہ کا الیکشن عدالت میں چلا گیا لیکن یہاں بھی اخلاقی اور سیاسی پوزیشن پی ڈی ایم ہی کی حاوی ہے۔ ضمنی انتخاب کے نتائج نے پی ڈی ایم کے اندر آصف زرداری کے بیانیے کو زبردست تقویت پہنچائی کہ بلاول زرداری کے اس موقف کو بھی سیاسی حلقوں میں پزیرائی ملی کہ موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لایا جائے شروع شروع میں تو پی ڈی ایم میں یہ تنہا بلاول زرداری کی آواز تھی لیکن بعد میں پی ڈی ایم کی کئی سیاسی جماعتیں بلاول کی ہمنوا بن گئیں۔ پھر جب سینیٹ کے انتخاب میں اسلام آباد کی ایک نشست کے لیے پی ڈی ایم کی طرف سے یوسف رضا گیلانی کو کھڑا کیا گیا اور ان کے مقابلے پر پی ٹی آئی کی طرف سے حفیظ شیخ سامنے آئے تو یہ مقابلہ ایک بین الاقوامی اہمیت اختیار کرگیا۔ پی ڈی ایم نے اس کو سیاست کی دنیا میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر متعارف کرایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت کی طرف سے اوپن بیلٹنگ کے صدارتی آرڈیننس کو عدالت عظمیٰ نے اس کے خلاف فیصلہ دے کر بے اثر کردیا پھر الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت خفیہ رائے دہی کی بنیاد پر سینیٹ کا انتخاب کرایا حفیظ شیخ کے جیتنے کے امکانات اس حوالے سے زیادہ تھے کہ سرکاری ارکان کی تعداد اپوزیشن سے زیادہ تھی، لیکن یہاں بھی جادو کی چھڑی گھوم گئی اور یوسف رضا گیلانی سات ووٹوں سے جیت گئے۔
یوسف رضا گیلانی کی جیت نے حکومت کو بہت زبردست صدمہ پہنچایا اور حکومت کی سیاسی حیثیت پر منفی اثرات مرتب ہونے لگے کہ اسی دوران عمران خان نے اپنے حق میں اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا اس لیے کے یہ آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ اب حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد بہت آسانی سے کامیاب ہو جائے گی دوسری طرف یہ بات بھی ہمارے ذہنوں میں رہنا چاہیے کہ پی ڈی ایم کے اندر آصف زرداری کا سیاسی وزن بڑھتا جارہا تھا ن لیگ اور جے یو آئی کی فکر مندی میں اضافہ ہورہا تھا کہ اب تک ملک میں پی ڈی ایم کے جتنے بھی جلسے ہوئے ہیں اس میں ن لیگ اور جے یو آئی کے کارکنوں کی تعداد پی پی پی کے شرکاء سے زیادہ رہی ہے کراچی کا جلسہ جس کی کامیابی کی ذمے داری پی پی پی کو دی گئی تھی وہی جلسہ سب سے زیادہ فلاپ ہو گیا تھا۔ صوبہ پنجاب میں جس طرح پرویز الٰہی نے حکمت و دانائی کی سیاست سے کام لیتے ہوئے تمام سینیٹرز بلا مقابلہ کامیاب کرائے اس میں پی ٹی آئی کا پلڑا ن لیگ سے کچھ بھاری رہا مریم نواز اس انتخاب سے ناراض نظر آرہی تھیں وہ اس لیے کہ پرویز الٰہی نے مریم نواز کے بجائے اس پورے عمل میں شہباز شریف کو آن بورڈ لیا تھا۔ عمران خان کے اپنے حق میں اعتماد کا ووٹ لینے کی حکمت عملی کامیاب رہی انہیں وزیر اعظم بنتے وقت جتنے ووٹ ملے تھے اس سے دو ووٹ زیادہ ہی مل گئے۔ اس میں دلچسپ بات یہ رہی کہ جن ارکان نے حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیا تھا انہوں نے عمران خان کے حق میں ووٹ دے کر اپنی نافرمانی کا کفارہ ادا کردیا۔ یوسف رضا گیلانی کے انتخاب میں ایک اور اہم بات یہ ہوئی کہ پی ٹی آئی کے حفیظ شیخ تو ہار گئے لیکن پی ٹی آئی کی خاتون سینیٹر کامیاب ہو گئیں اور انہوں نے یوسف رضا گیلانی سے زیادہ ووٹ لیے اس میں ایک بات تو یہ رہی کہ پی ٹی آئی کے جن ارکان نے حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیے تھے انہوں نے پی ٹی آئی کی خاتون سینیٹر کو ووٹ دے دیا مریم نواز کا ایک شک یہ بھی ہے کہ ان کی خاتون دوست کو ہرانے کے لیے ان کے چچا شہباز شریف نے یہاں بھی اپنا کام دکھا یا اور ن لیگ کے کچھ ارکان نے ن لیگ کی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔
12مارچ جمعہ والے دن سینیٹ کے چیئرمین کا جو انتخاب ہوا ہے وہ بہت دلچسپ ہے نمبر گیم تو اپوزیشن کے زیادہ تھے اور یوسف رضا گیلانی کے جیتنے امکانات واضح تھے۔ لیکن ان کے سات ووٹ ضائع ہو گئے اس پر ایک قانونی بحث تو چل رہی ہے بلاول زرداری نے اس کو چیلنج کرنے کو کہا ہے الیکشن کمشنر مظفر حسین شاہ نے بھی کہا ہے کہ کسی کو اس پر اعتراض ہے تو وہ عدالت میں چلا جائے یہ الیکشن ایک لحاظ سے متنازع تو ہوگیا ہے
لیکن فی الحال عملی صورت تو یہ ہے کہ صادق سنجرانی نے حلف اٹھا لیا ہے لیکن یہ سوال تو اپنی جگہ قائم ہے کہ وہ کون سے سات ارکان ہیں جنہوں نے اپنے ووٹ ضائع کردیے اور یوسف رضا گیلانی ہار گئے ایک خیال یہ ہے کہ اس میں بھی شہباز شریف صاحب نے اپنا کام دکھایا ہے کہ اب تک پی ڈی ایم کے اندر آصف زرداری کا بیانیہ غلبہ حاصل کررہا تھا اور وہ یہ تاثر دے رہے تھے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے ہو گئے ہیں وہ سارے سیاسی عمل میں غیر جانبدار رہے گی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ہاتھ میں رعشہ ہونے کے باوجود دوسری دفعہ تھرتھراتے ہاتھوں سے وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے خواب دیکھ رہے تھے، شہباز شریف نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ طلال چودھری کا طنزیہ ٹویٹ اور بلاول کا جواب بھی دونوں بڑے مزیدار اور دلچسپ ہیں، ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو سینیٹ کے چیئرمین کے الیکشن میں ن لیگ جیت گئی اور پی پی پی ہار گئی۔