کراچی (رپورٹ: منیب حسین) ترکی اپنے محل وقوع کے لحاظ سے دنیا کے چند انتہائی اہم ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ملک براعظم ایشیا اور یورپ کے سنگم پر ہے، جبکہ اس کے شمال مشرق میں یورپ کا ایک بڑا حریف روس واقع ہے۔ اسی طرح بحیرۂ اسود اور بحیرۂ روم میں رابطے کا واحد آبی راستہ آبنائے باسفورس بھی اس ملک کے درمیان سے گزرتا ہے، اس لیے ترکی کی جغرافیائی، سیاسی اور اقتصادی اہمیت دنیا میں مسلم ہے، اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے انقرہ حکومت دہائیوں سے یورپی یونین میں شمولیت کی خواہاں رہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے ترکی نے 1963ء میں اس علاقائی اتحاد کا رکن بننے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ پھر تقریباً 4 دہائیوں کے بعد 1999ء میں جاکر یورپی یونین نے ترکی کو امیدوار ملک کا درجہ دینے کی زحمت کی۔ 2005ء میں اس حوالے سے مذاکرات کا آغاز ہوا، جو منطقی انجام کو پہنچنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس دوران فریقین کے درمیان دیگر معاملات پر اختلاف اور کشیدگی کے باعث بات چیت کا سلسلہ ٹوٹتا اور جڑتا بھی رہا۔ اسی بنا پر اس عمل کو یورپی یونین کا رکن بننے کے لیے کسی بھی ملک کے ساتھ طویل ترین مذاکرات قرار دیا جاتا ہے۔ یورپی یونین نے کئی ممالک کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ترکی سے بات چیت کے بعد کیا اور اب وہ اس کا حصہ ہیں، جبکہ انقرہ حکومت اب تک اپنے مستقبل کے فیصلے کی منتظر ہے۔ یہ بظاہر ایک طرح کا امتیازی سلوک ہے، لیکن اس کے باوجود ترکی کی غیرمعمولی کوششوں کو دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ رکنیت ترکی کے لیے اتنی اہم کیوں ہے؟ اور کیا ایسا ممکن ہے؟ ہم نے یہ سوالات ترکی اور جرمنی میں موجود کچھ شخصیات سے کیے۔ ترکی کی کوتاہیا دملوپینار یونیورسٹی کے ریکٹر اور ماہر سیاسیات پروفیسر براق بینارچے کا جسارت سے خصوصی گفتگو میں اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’’اس معاملے کا تجزیہ کرنے سے قبل چند اہم نکات جاننا ضروری ہیں۔ پہلی چیز ترکی کی مغرب زدہ ذہنیت ہے۔ قوم سازی اور خارجہ پالیسی بنانے میں ترکی نے جمہوریہ کے قیام سے ہی خود کو ترقی یافتہ مغربی دنیا کی طرز پر ڈھالنے کی کوشش کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سامنے آنے والے عالمی نظام میں ترکی نے امریکا کے زیرقیادت مغربی لبرل کیمپ میں شامل ہونے کی سعی کی، جس میں وہ کامیاب رہا۔ پھر سرد جنگ کے دور میں ترکی یورپ کی جانب کھنچنا شروع ہوا، جس کے نتیجے میں یورپ اس کا ثانوی اتحادی بن گیا۔ دوسرا اہم نکتہ یورپی یونین سے متعلق ترکی کا نظریہ ہے۔ مغرب زدہ ذہنیت کے مطابق ترکی کی سیاسی، سماجی اور معاشی ترقی کے لیے یورپی انضمام بہترین حکمت عملی ہے۔ یہی سوچ یورپی یونین سے تعلقات کے لیے ترکی کو سب سے زیادہ برانگیختہ کرتی ہے۔ تیسرا اہم نکتہ یورپی یونین کا دوہرا معیار ہے۔ ترکی سے کمزور تر سیاسی اور معاشی صورت حال کے حامل ممالک یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرچکے ہیں، جبکہ ترکی 60 سال سے اس تگ ودو میں ہے۔ 2002ء میں اردوان کی انصاف وترقی پارٹی برسراقتدار آئیتو اس نے اندرون خانہ اور بیرونِ ملک پُرامن پالیسیوں پر کاربند ہونے کا پیشگی اعلان کیا۔ پھر اس جماعت کی تشکیل لبرل سیاست پر تھی، یہی وجہ ہے کہ اس کے دور میں ترکی اور یورپی یونین کے تعلقات تیزی سے پروان چڑھے۔ ترکی نے رکنیت کے لیے تیز ترین اصلاحات کیں، اور فوج سے عدلیہ اور معیشت سے اشرافیہ تک میں یورپی یونین سے ہم آہنگ تبدیلیاں لائی گئیں۔ اسی کی بدولت 2005ء میں ترکی کی درخواست قبول کرلی گئی اور اس وقت سے مذاکرات جاری ہیں‘ اس دوران 35 ابواب پر بات ہونی ہے۔ رکاوٹوں کے باوجود اب تک 16 پر بات چیت ہوچکی ہے۔ تاہم اب یورپی یونین کے دوہرے معیار اور ترکی کی بڑھتی خودانحصاری کے باعث فریقین کے درمیان مختلف تعلقات استوار ہو رہے ہیں۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود مذاکرات جاری ہیں، لیکن 3رکن ممالک فرانس، یونان اور جنوبی قبرص نے یورپی یونین میں ترکی مخالف گروپ بنا رکھا ہے، اور انقرہ حکومت اس کا حل نہیں نکال سکی ہے۔ ترکی کی نئی خارجہ پالیسیوں، ہمسایوں کے ساتھ مکمل امن اور عثمانی ورثے کو مربوط کرنے کی کوششوں نے بھی یورپی یونین کو پریشان کردیا ہے۔ چند برسوں میں ترکی نے اپنا کردار قوم پرست اور جارحانہ بنایا ہے۔ دوسری جانب یورپی یونین میں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی بڑھ رہی ہے، جس کے باعث ترکی مخالف گروپ کو تقویت مل رہی ہے۔ اس ساری صورت حال میں تُرک عوام سمجھتے ہیں کہ انصاف وترقی پارٹی کے ابتدائی دور میں ترکی کے لیے یورپی یونین ترقی کا ایک وسیلہضرور تھا، تاہم اب وہ صرف ایک اپ ڈیٹڈ غیر اور بیرونی طاقت ہے‘‘۔ ہم نے ترکی کے سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کے نامہ نگار حسن عبداللہ سے یورپی یونین میں شمولیت کے فوائد سے متعلق سوال کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یورپی یونین ایک طاقت ور اتحاد ہے۔ سیاسی نکتہ نظر سے اس کا رکن ملک بین الاقوامی سطح پر کسی معاملے میں کوئی موقف اپناتا ہے، تو اسے یورپی یونین کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ دوسرا اس ملک کی سلامتی اتحاد کی ذمے داری ہوجاتی ہے۔ ترکی پہلے ہی نیٹو کا رکن ہے اور اگر وہ یورپی یونین کا بھی حصہ بن جائے گا، تو اسے تحفظ کا ایک اور حصار حاصل ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس رکنیت کے معاشی فوائد بھی ہیں، جن سے بہت سے ممالک کو فائدہ ہوا ہے۔ اس لیے ترکی اس اتحاد میں شامل ہونے کی کوشش کررہا ہے‘‘۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے امتیاز احمد جرمنی کے سرکاری نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔ ہم نے ان سے رکنیت ملنے کے امکانات کا پوچھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس حوالے سے یورپی یونین کے مختلف عہدے داروں کے انٹرویو کیے ہیں۔ اکثر کا خیال ہے کہ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت مشکل ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سب سے بڑی وجہ یورپی یونین کی بنیاد ہے، جو مشترکہ تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی اکائی پر رکھی گئی ہے۔ اگر ترکی کو رکنیت دے دی جائے تو یورپی یونین کی اس اساس پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔ یورپی یونین میں شامل تمام ممالک نظریاتی لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ اور مسیحی ویہودی اقدار رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے کسی بھی مسلمان ملک کا اس میں شامل ہونا مشکل ہے۔ پھر ترکی کی آبادی تقریباً 8 کروڑ سے زیادہ ہے، جب کہ یورپی یونین کے کئی امور آبادی کے تناسب سے ممالک میں تقسیم ہیں۔ اب ترکی اگر یورپی یونین میں شامل ہوگیا تو بطور رکن اسے ملنے والی رقم کا حجم 45 ارب یورو بنے گا۔ ترکی کی سالانہ شرح نمو میں اس کی زراعت کا حصہ 14 فیصد ہے۔ اس طرح یورپی یونین کی زرعی مراعات کا بھی زیادہ فائدہ اسے ہی ہوگا۔ یورپی پارلیمان میں نشستیں آبادی کے لحاظ سے ہوتی ہیں، تو ترکی کو جرمنی اور فرانس کے برابر درجہ مل جائے گا۔ ترکی کسی بھی یورپی یونین کی پالیسی پر اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔ اس طرح یورپی یونین کی تاریخ میں پہلی بار کسی کم امیر ملک کو مضبوط سیاسی کردار مل جائے گا۔ نیز ترکی کے شہریوں کو ویزا فری انٹری مل جائے گی۔ اندازوں کے مطابق ترکی سے تقریباً 30 لاکھ افراد یورپی یونین ہجرت کر جائیں گے۔ یورپی یونین میں پہلے ہی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یورپ میں کم شرح پیدایش اور مسلمان خاندانوں کی بڑھتی آبادی یورپی پالیسی سازوں کے لیے پہلے ہی ایک مسئلہ ہے۔ یورپی عوام خوفزدہ ہیں کہ اس براعظم میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے مہاجرین کی مخالفت بھی اسی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔ اس لیے ترکی کو رکنیت ملنا مشکل ہے‘‘۔