حکمران طبقات محنت کشوں کو انصاف فراہم کریں‘ شفیق غوری
لیبر لاز پر عمل سے حقوق ملیں گے‘ موسیٰ خان
پاکستان ورکرز فیڈریشن کے زیر اہتمام لیبر قوانین میں بہتری اور ان پر عمل درآمد کے عنوان پر میڈیا کے ہمراہ ایک روزہ تربیتی پروگرام 11 مارچ کو کراچی میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر پاکستان ورکرز فیڈریشن کراچی کے صدر موسیٰ خان نے کہا کہ لیبر قوانین پر عمل درآمد کروانے کے لیے مزدوروں کو جدوجہد کرنا ہوگی۔ پاکستان ورکرز فیڈریشن سندھ کے جنرل سیکرٹری اسد میمن نے کہا کہ تربیتی پروگرام سے محنت کشوں میں شعور اجاگر ہوتا ہے۔ پاکستان ورکرز فیڈریشن کے نیشنل کوآرڈینیٹر شوکت علی انجم نے کہا کہ پاکستان ورکرز فیڈریشن میڈیا کے ہمراہ لیبر قوانین میں بہتری کے لیے ملک بھر میں مہم چلارہی ہے تاکہ مزدوروں کی آواز حکمرانوں تک پہنچ سکے۔ انہوں نے کہا کہ لیبر قوانین تو اچھے بنے ہوئے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مزدور اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کوئلہ کی کانوں میں آئے دن حادثات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مزدور ہلاک ہوجاتے ہیں۔ کانکنوں کو کام کے دوران حفاظتی آلات فراہم نہیں کیے جاتے۔ انہوں نے کہا کہ لیبر قوانین پر عملدرآمد ہوگا تو محنت کشوں کو حقوق و مراعات ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جدوجہد کرنے سے مزدور حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی حال ہی میں کے پی کے کے سرکاری ملازمین نے سردی کے موسم میں اسلام آباد میں دھرنا دے کر شدید احتجاج کیا جس کے بعد حکومت نے مجبور ہو کر ملازمین کے مطالبات کو تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ جدوجہد کرنے سے مزدور تحریک میں طاقت آتی ہے۔ اتحاد کی طاقت سے مزدور مسائل حل ہوتے ہیں۔ مزدور مفاد میں سب کو مل کر کام کرناہوگا۔ مزدور تحریک کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ کے فلاحی اداروں کے افسران کو دعوت دی تھی، حامی بھرنے کے باوجود بھی کوئی نہیں آیا۔ سندھ لیبر فیڈریشن کے صدر شفیق غوری نے کہا کہ محکمہ محنت کو موقع ملا ہے کہ وہ مزدوروں کی فلاح و بہبود کریں۔ مزدوروں کو انصاف فراہم کریں۔ انہوں نے کہا کہ صنعت کار مالک نہیں بلکہ آقا بنے ہوئے ہیں۔ ماضی کی طرح آقا آج بھی غلاموں کو کچھ دینے کو تیار نہیں اور افسر شاہی بھی مزدوروں کو کچھ نہیں دیتی۔
شفیق غوری نے کہا کہ چاروں صوبوں میں لیبر قوانین پر عمل نہ ہو نے سے مزدوروں کے لیے حالات کار بد تر ہو گئے ہیں۔ فیکٹریوں، کارخانوں اور کام کی جگہوں پر محنت کشوں کی زندگیاں عملاً جہنم کا نمونہ بنا دی گئی ہیں، صنعتکاروں کو لیبر قوانین پر عمل درآمد نہ کرنے کی کھلی چھوٹ اور اس سلسلے میں حکومتی و ریاستی پشت پناہی کے باعث حقوق نامی کوئی بھی شے مزدورو ں کے لیے خواب وخیال بن کر رہ گئی ہے۔ ایک طرف فیکٹریاں اور کارخانے ورکرز کے لیے جبری مشقت کے اذیت خانے بنے ہوئے ہیں تو دوسری جانب ان کی بستیاں ایسے اجڑے دیاروں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محنت کشوں کے سلگتے ہوئے مسائل سرمایہ داروں، جاگیر داروں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ پاکستان میں بے شمار لیبر قوانین موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزدوروں کے مسائل کے حل کے لیے تمام لیبر لیڈرز کو متحد ہونا پڑے گا اور مزدور تحریک کو فعال بنانا ہو گا تاکہ مزدوروں کی آواز کو ایوانوں تک پہنچایا جا سکے۔انہوں نے ورکرز ویلفیئر بورڈ اور سیسی میں ہونے والی کرپشن پر بھی روشنی ڈالی۔
جھلکیاں
پاکستان ورکرز فیڈریشن کے پروگرام میں روزنامہ جسارت کے قاضی سراج اور منیر عقیل انصاری، روزنامہ اوصاف کے مبشر فاروق، ملیر پریس کلب کے سلطان احمد سامی میمن اور سید سجاد علی شاہ، آواز ٹی وی کے حمید، لیبر رائٹس کے منور ملک، لیبر نیوز کے عبدالحمید، روزنامہ کامریڈ کے محمد دانش، رپورٹر انبیہ وقار، صحافی یوما ملک، پاکستان ورکرز کنفیڈریشن سندھ کے چیئرمین ایوب قریشی، KZI نیوز کے محمد ظفر، ایکسپریس ٹریبیون کے صفدر عباس زیدی، شاہ لطیف لوکل گورنمنٹ ایمپلائز یونین کے حافظ مشتاق علی کوریجو، زاہد میمن اور احد جمال، PWF سندھ کے شیراز احمد سومرو اور انیس علی، PWF کراچی کے ندیم اسلم، ثنا، شمائلہ نعمان، امین غازی اور شبیبا وقار اور EOBI کے سابق افسر اسرار ایوبی نے شرکت کی۔