ایک گاؤں کے چھوٹے سے بازار کی میں ایک ایسا دکاندار تھا جو اپنی دکان پر صرف اصلی یا مقامی زبان میں دیسی گھی کے سوا اور کوئی شے فروخت نہیں کیا کرتا تھا۔ گھی نہ صرف خالص تھا بلکہ اس کی فی سیر قیمت اتنی مناسب تھی کہ کسی میں اتنی ہمت ہی پیدا نہ ہو سکی کہ اس کے مقابلے میں آ ئے۔ حاسدوں نے اس کی بہت جانچ پڑتال کرائی کہ کوئی ایسا نقص نکالیں جس سے دکاندار کی ساکھ متاثر ہو سکے۔ گھی کے خالص ہونے کی ہر جگہ تصدیق کرائی، خالص ہی ثابت ہوا۔ تول کی تصدیق میں بھی وہ پکا ہی نکلا۔ بھینس کے سوا کسی اور جانور کے دودھ یا چربیوں کی آمیزش کے شک کی بھی پڑتال کروائی گئی لیکن اس میں بھی کامیابی نہ ہوئی۔ کاروباری حسد کی آگ ساری جانچ پڑتال کے بعد بھی سرد نہ ہوئی تو بازار کے دوسرے سرے پر ایک اور دیسی گھی کی دکان کھول کر گاؤں کے پرانے دکاندار سے کم قیمت فی سیر کا بورڈ آویزاں کر دیا گیا۔ خالص گھی بیچنے والے پرانے دکاندار کے راستے میں یہ دکان آتی تھی۔ صبح ہی صبح جب پرانے دکاندار کی نظر دکان کے سامنے لگے بورڈ کی فی سیر قیمت پر پڑی تو اسے بہت حیرت ہوئی کیونکہ اس کے حساب کتاب کے مطابق اس کی دکان پر بکنے والے گھی سے کم قیمت پر گھی فروخت کرنا بہت ہی مشکل کام تھا۔ سوچا نیا نیا آیا ہے اس لیے کچھ عرصے کے بعد وہ کسی صورت اس کی دکان سے کم قیمت پر اصلی گھی فروخت نہ کر سکے گا۔ دو تین دنوں کے اندر اندر اس کے گاہک آدھے بھی نہیں رہ گئے تو اسے بھی اپنے گھی کی قیمت کو مسابقت کرنے والے سے کم پر لانا پڑا لیکن اگلے دن نئے دکاندار کے مقررہ قیمت سے بھی آدھی قیمت مقرر کیے جانے کا بورڈ دیکھ کر بہت پریشانی ہوئی۔ کیونکہ اس نے مقابلے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا اس لیے سوچا کہ جہاں بیس پچیس سال مناسب ہی سہی، منافع کمایا ہے تو اب کچھ عرصے سراسر نقصان ہی سہی لہٰذا اس نے ایک سیر پر ایک سیر مفت کا بورڈ آویزاں کر دیا۔ اگلے دن اس نے اپنے مخالف کی دکان پر ایک سیر پر مفت دوسیر کا بورڈ دیکھ کر سر پیٹ لیا۔ جب اس کا سب کچھ لٹ چکا تو وہ دکان اور گھر بار سب کچھ بیچ کر گاؤں ہی چھوڑ کر جانے لگا۔ جاتے جاتے وہ اپنے مخالف کی دکان پر رکا اور اس سے کہا کہ میں تو اب یہ گاؤں ہی چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ جاتے جاتے میں تم سے صرف یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ تم مفت گھی فروخت کرنے کے باوجود بھی کنگال کیوں نہیں ہوئے جبکہ میں بالکل ہی برباد ہو گیا ہوں تو اس نے کاروباری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ میں گھی فروخت ہی نہیں کیا کرتا تھا بس ہر روز بورڈ بدل دیا کرتا تھا۔
کچھ ماہ پہلے کی بات ہے کہ ہماری تبدیلی والی سرکار نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کئی روپے فی لیٹر کی کمی کر کے پورے پاکستان میں اپنے حق میں خوب تالیاں پٹوائیں۔ لوگ حقیقتاً حیران بھی ہوئے اور خوشی سے اپنی باچھیں بھی کھل جانے سے نہ روک سکے لیکن اعلان کے ساتھ ہی پورے ملک میں سارے سرکاری و غیر سرکاری پٹرول پمپ بند ہو گئے۔ پھر ہوا یہ کہ سرکار نے نہ صرف کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک لگا کر پٹرولیم مصنوعات فروخت کرنے والوں سے معافیاں مانگیں بلکہ ناک رگڑ کر نہ صرف پہلی قیمتیں بحال کریں بلکہ پھر ہر دس بارہ روز کے بعد مسلسل اضافے کے وعدے پر پٹرول کی سپلائی کو بحال کروایا۔ حکومت خود یہ بات متعدد بار دہراتی چلی آ رہی ہے کہ وہ مافیاؤں کے ہاتھوں بے بس ہے۔ وہ مافیاؤں کے آگے اس درجے بے بس ہے کہ ان کو اپنی پارٹی سے بھی خارج کرنے کی جسارت نہیں کر سکتی۔ جب جب بھی حکومت ان کے خلاف کارروائی کا ارادہ کرتی ہے، حکومت کی آخری منزل تک زلزلے کے جھٹکے صاف محسوس کیے جانے لگتے ہیں۔
تازہ خبروں کے مطابق حکومت نے ایک اور کوشش کی کہ غریبوں کو کچھ اشیا عام مارکیٹ سے کم قیمت پر مہیا ہو سکیں جس میں چینی جیسی بنیادی چیز بھی شامل تھی۔ عام مارکیٹ میں فروخت ہونے والی کسی بھی شے پر پہلے ہی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے اور ایک خوانچہ فروش سے لیکر بڑے بڑے اسٹور والے من مانیاں کرنے میں شیر ہوتے جا رہے ہیں لہٰذا جب حکومت نے اپنے ہی یوٹیلٹی اسٹورز پر کچھ اشیائے ضروریہ اور خاص طور سے چینی اور آٹا جیسی چیزوں کو بازار سے ارزاں قیمت پر فروخت کرنے کا ارادہ کیا تو ایسی تمام ارزاں کی گئی اشیا ہی یوٹیلٹی اسٹورز سے غائب کر دی گئیں۔ یہ عمل ویسا ہی ہے جیسے ایک فراڈی گھی فروش نے ہر روز سستا گھی بیچنے کے بورڈ بدل بدل کر ایک ایماندار گھی فروش کو گاؤں ہی سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا تھا۔جو حکمران عوام کو اپنے (سرکاری) ہی اسٹوروں یا ملک بھر کے پٹرول پمپوں پر اپنی مقررہ قیمت پر اشیائے ضروریہ یا پٹرول بیچنے کا پابند نہیں بنا سکتے تو کیا پھر بھی اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ وہ تخت اقتدار پر براجمان رہیں۔ یہ بات عوام اور حکومت، دونوں کے سوچنے کی ہے اور اگر اس نکتے پر سنجیدگی اختیار نہ گئی تو پھر پاکستان کا ’’اللہ ہی حافظ‘‘ کا نہایت گہرے سانسوں کے ساتھ کہنے کو بے معنی سمجھنا، خدا نہ خواستہ ایک بہت بڑی بھول بھی ہو سکتی ہے۔