بدترین جمہوریت کی ’’خوبصورتی!‘‘

965

بدترین جمہوریت کی ’’خوبصورتی‘‘ یہ بھی ہے کہ حکومتی پارٹی کے 178 ووٹ سینیٹ کے انتخابات میں پارٹی امیدوار حفیظ شیخ کے لیے 164 ہوجاتے ہیں جبکہ اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے ووٹ 169 ہوکر انہیں کامیاب کرادیتے ہیں۔ ساتھ ہی سات ووٹ ضائع بھی ہوجاتے ہیں۔ پھر وزیراعظم پر اظہار اعتماد کا معاملہ ہو تو یہ ووٹ 178 قرار پاتے ہیں۔ کسی اصول، ضابطے اور اخلاق سے پاک اس عمل کو جمہوریت کہا جاتا ہے، مگر میرا خیال ہے کہ یہ جمہوریت نہیں بدترین جمہوریت کا اصل نمونہ ہے۔ جو انتخابات خصوصاً سینیٹ میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس مظاہرے سے پہلے اور بعد میں اسے ہارس ٹریڈنگ یعنی گھوڑوں کی خرید و فروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ گھوڑا منڈی کہیں اور نہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے ایوان میں سجائی جاتی ہے۔ اس بار تو یہ بھی واضح ہوگیا کہ وزیراعظم پر اعتماد کے اظہار کے لیے یہ تعداد بڑھ کر 178 تک پہنچ جاتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جمعرات کو جس بھرپور کامیابی کے یقین کے ساتھ اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا تھا، ہفتہ 6 مارچ کو انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ کرکے بھی دکھادیا۔ اس طرح بدترین جمہوری حکومت کا احیا ہوگیا اور منتخب ایوانوں سے دور معصوم عوام کی ’’امیدوں پر پانی پھر گیا‘‘۔
اپوزیشن کی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن سمیت ساری جماعتیں حکومت کو گرانے کے لیے لانگ مارچ کی تیاریاں کررہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے اعتماد کا ووٹ لینے کے اعلان ہی سے شاید زیادہ گھبراگئی تھیں، تب ہی ایوان کے اجلاس کے بائیکاٹ کو فرار کا مناسب راستہ جانا اور وزیراعظم عمران خان کو اپنی مستحکم حکمرانی کے اظہار کا کھلا موقع فراہم کیا۔ جس یہ بھی یقین ہوگیا کہ یہ حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت کے خلاف صرف منتخب ایوانوں سے باہر ہجوم جمع اور شور شرابا کرکے بے وقوف قوم کا وقت ضائع اور اپنے کارکنوں کو فعال رکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکتیں۔ بہرحال حکومت کے خلاف پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرتے ہوئے کسی نامعلوم کا جوتا کھا کر اپوزیشن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس حکومت کے خلاف جوتے کھانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ بدترین جمہوریت میں شاید عوام کے جوتے بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
وزیر ِاعظم عمران خان کا اپنی پکی اور تادیر حکمرانی کے اظہار کے لیے یقین کے ساتھ اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کرنا اور محض ایک روز کے وقفے کے بعد اعتماد کا پرامن ماحول میں منتخب ایوان سے ووٹ حاصل کرلینا جمہوری عمل کے پس پردہ موجود آمریت کے خوف کی چغلی ظاہر کرتا ہے… یہ بات فی الحال مان لیتے ہیں کہ پاک فوج ملکی سیاسی معاملات سے دور رہتی ہے مگر وزیراعظم عمران خان کے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے محض کچھ دیر بعد ہی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ون آن ون ملاقات کو کیا سمجھا جائے؟ معصوم عوام تو اس ملاقات کو عمران کی طرف سے فوج سے فوری مدد طلب کرنے سے زیادہ کچھ اور سمجھنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتی۔
عمران خان تو قومی اسمبلی سے کلیئر ہوگئے لیکن ابھی چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں کیا ہوگا اور کون کس طرح منتخب ہوگا یہ دیکھنا باقی ہے؟ دلچسپ امر یہ ہے کہ سینیٹ کے اراکین کے انتخابات میں خفیہ بیلٹنگ کے حمایتیوں کی طرف سے اب خفیہ رائے شماری کی آوازیں آنا شروع ہو چکی ہیں۔ کیونکہ کل تک جو خفیہ بیلٹنگ کے حق میں تھے انہیں اب اس طریقے سے گھبراہٹ محسوس ہونے لگی ہے۔ مسلم لیگ ن کی خاتون رہنما مریم نواز نے پیر کو اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے موقع پر کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات کرائے جائیں۔ اپوزیشن کی رہنما کا چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات سے قبل اوپن بیلٹ پر الیکشن کی بات کرنا دراصل ’’کڑوا کڑوا تھو تھو میٹھا میٹھا ہپ ہپ‘‘ کے مترادف ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہی جمہوریت ہے یا جمہوریت کو اپنی مرضی سے چلاکر اس بدترین جمہوریت کی ’’خوبصورتی‘‘ بیان کرنے کی کوشش ہے؟ فیصلہ قوم کو کرنا ہوگا۔ بہرحال چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے 12 مارچ کو ہونے والے چنائو کے نتائج سے بھی حکومتی پارٹی اور اپوزیشن کی جمہوریت پسندی کے دعووں کی حقیقت سامنے آجائے گی۔ اگر اپوزیشن کے امیدوار 178 سے زیادہ ووٹ حاصل کرگئے یا حکومتی امیدوار کسی طرح میدان مار گئے تو کیا ہارس ٹریڈنگ کے الزامات سے بچ سکیں گے؟