کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی ) خطبہ نکاح کے لیے منتخب تینوں آیات پورے خاندان کے استحکام اور مضبوطی کی بنیاد فراہم کرتی ہیں، قران جیسی گائیڈ بک کی تعلیمات اور ضوابط پر عمل کر کے خاندانی نظام کو ٹوٹ پھوٹ سے بچایا جاسکتا ہے،خاندان کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ہے تو فرد کو خاندان سے اپنا حق طلب کرنے سے زیادہ فرائص کی طر ف توجہ دینا ہوگی، صبر و تحمل اور برداشت کے کلچر کو برقرار رکھا جائے،خاندان کے ادارے کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے ،عصمت وعفت کی حفاظت ،اہل خاندان اور دیگر رشتے داروں کے صلہ رحمی کا رویہ اور اسلامی اخلاقی اقدار کی ترویج ضروری ہے ۔ ان خیالات کا اظہار برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر اور لندن کی جامع مسجد کے خطیب وامام حافظ محمد سلیم انور، ،ممتاز عالم دین اور جامعہ الصفہ کے نائب مہتمم مفتی محمد زبیر اور جامعہ پنجاب کی معلمہ اور مذہبی اسکالر ڈاکٹر ام کلثوم نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔جس میں ان سے پوچھا گیا تھاکہ خاندان کے ادارے کوٹوٹ پھوٹ سے کیسے بچایا جاسکتا ہے ؟ جامعہ الصفہ کے نائب مہتمم اور ممتاز عالم دین مفتی محمد زبیر نے کہاکہ اسلام ایک دستور حیات اور قران پورے ضابط زندگی کا نام ہے اور قران جیسی گائیڈ بک میں خاندانی نظام کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے لیے مکمل ضوابط اور تعلیمات موجو د ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے خاندان کو ٹو ٹ پھوٹ سے بچایا جا سکتا ہے ۔انہوں نے ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اسلام میں عورت کے نان ونفقے اور تمام ضروریات زندگی کا ذمے دار مرد کوقرار دیا ،جس پر عمل سے خاندان کوٹوٹ پھوٹ سے بچایا جاسکتا ہے ۔تمام شرعی ذمے داریوں کو مکمل طور پر اداکیاجائے ۔خاندان کے ادارے کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ کلچر ، فیشن ، جدیدیت نے ہمارے خاندانی نظام پر جو کڑی ضرب لگائی ہے اس کی روک تھام کی جائے اور بے جا فیشن، اور محض اپنے نام ونمود کے لیے فضولیا ت سے بچا جائے، خاندانو ں میں جدیدیت کے نام پر رشتوں کے تقدس کے خاتمے،پیسے کی دوڑ ، رشتے داروں سے صلہ رحمی کے شرعی حکم پر عمل نہ ہونا بھی خاندانوں میں ٹوٹ پھوٹ کا سبب ہے ۔ لہٰذاخاندانوں کے ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ جدید دور اور ترقی کی دوڑ کے نام پر دینی تعلیمات کے خلاف عمل کو رد کیا جائے اور خاندان کے بارے میں دیے گئے اسلامی ضابطوں پر مکمل عمل کیا جائے۔مفتی زبیر کا کہنا تھا کہ مشرقی روایات کے مطابق صبر ، تحمل اور برداشت کے کلچر کو برقرار رکھا جائے۔خاندان کے سربراہ سمیت تمام افراد کے مزاج میں اپنی بات پر اڑ جانے، بے چینی، بے صبری اور انا پرستی پیدا ہوجانے سے بھی خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،یہ نہایت ضروری ہے کہ میاں بیوی سمیت تمام افراد اپنے مزاج میں اس نوعیت کی چیز یں پیدا ہونے سے روکیں ۔ان کا مزید کہنا تھاکہ خاندان کے تمام افراد خود پر قابو رکھیں تو خاندانوں میں نفاق اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو روکا جاسکتا ہے ۔جامعہ پنجاب کی معلمہ اور اسکالر ام کلثوم کے مطابق انسان نے ہردور میںمعاشر ت پسندی کے حوالے سے اجتماعی زندگی بسر کی ہے جس میںسب سے سے زیادہ بنیادی اہمیت جس ادارے کو حاصل کررہے وہ خاندان کا ادارہ ہے اور اسلام نے خاندان کی اکائی کو بطریق احسن تشکیل دینے پر زور دیا ہے ۔ان کاکہنا تھا کہ خاندان کو ٹو ٹ پھوٹ سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ا س بات کو تسلیم کیا جائے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق خاندان ایک عورت اور مرد کے عقد، ان کے بچوں سے وجود میں آتاہے لیکن اس میں شوہر کے والدین اور خونی رشتے ایک وسیع خاندان تشکیل دیتے ہیں اور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے قران کے اس حکم پر عمل کیاجائے جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ اللہ سے تقویٰ اختیار کروجس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو ،رشتے داروں اور قربت داروں سے تعلقات بگاڑنے سے پرہیز کرویقین جانو اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے ، اگر ہم اس حکم پر عمل کریں تو خاندان میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ختم ہوجائے گا ۔ ان کامزید کہنا کہ نبیﷺ کی طرف سے خطبہ نکاح کے لیے منتخب تینوں آیات پورے خاندان کے استحکام اور مضبوطی کی بنیاد فراہم کرتی ہیںجس میں عورت کوکمتر سمجھنے ،زندگی کے تمام مراحل بیوی ، بچوں ،والدین اور دیگر معاشرتی ذمے داریوں سے بخیر وعافیت اور ایمان سے گزارنے اور زبان کی حفاظت شامل ہے ۔ڈاکٹر ام کلثوم کے مطابق خطبہ نکاح کی تیسری آیت میں وہ بنیادی ہدایت دی گئی ہے جو خاندان کو ٹوٹ پھوٹ سے بچا سکتی ہے ۔بتایا گیاہے کہ اجتماعی زندگی کے کچھ تقاضے ہوتے ہیںجن کی تکمیل کے لیے نرم گفتاری اور خوش کلامی ضروری ہے ۔اس سے لغزشوں سے صرف نظر ہوتی ہے اور ماحول میں شیرینی گھولتی ہے۔خاندان کے ادارے کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی عصمت وعفت کی حفاظت کی جائے ،اہل خاندان اور دیگر رشتے داروں کے صلہ رحمی کا رویہ رکھاجائے ۔اسلامی اخلاقی اقدار کی ترویج کی جائے۔برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر اورممتاز عالم دین حافظ محمد سلیم ا نور نے کہا سورہ نساء کی پہلی آیت مبارکہ میں کہاگیاہے کہ اے لوگوں اللہ سے جس نے تم کو ایک جان سے پیداکیا کہ اور اسی جان سے ا س کو جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے فرد اور عورتوں کو دنیا میں پھیلا دیا۔اس کا تقویٰ اختیار کروکہ جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے پر اپنا حق جتاتے ہو اسی طرح قربت اور رشتے داروں سے بھی تعلق توڑنے سے بچو۔تقویٰ اختیار کرو اور جان لو کہ اللہ تمہارے اوپر نگہبان ہے،اگر ہم خاندان کی تخلیق کے اس واضح مقصدکو سمجھ لیں اور تقویٰ اختیار کریں تو خاندان میں ٹوٹ پھوٹ کی گنجائش ہی نہ رہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ خاندان کے حوالے سے یہ حدیث نبوی موجود ہے کہ تم میں سے ہرشخص گلہ بان ہے،اس کو اپنے گلے کی نگہبانی کر نی ہے اور اس سے اس بارے میں سوال کیا جائے گا، مرد کا ایک دائرہ کار جس میں اس کو اپنی ذمے داری پوری کرنی ہے اسی طرح خاتون کی اپنی ایک ذمے داری ہے جس کو اسے پور اکرنا ہے ، لہٰذا اگرخاندان کے تمام افراد خاندان کی تخلیق کرنے والے کی ہدایت کے تقویٰ اختیار کرنے میںایک دوسرے کے معاون ہوں گے تو خاندانی نظام کی تخلیق کا مقصد پورا ہوگا ۔