اسلام آباد (آن لائن) وفاقی نظامت تعلیمات کے ملازمین کی اپ گریڈیشن اور پری میچور انکریمنٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت عظمیٰ نے سیکرٹری خزانہ، ایجوکیشن اور اسٹیبلشمنٹ سے تمام نوٹیفکیشن پر مشتمل مفصل رپورٹ ایک ہفتے میں طلب کر لی ہے۔ معاملے کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ نے کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے بتایا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر وزارت تعلیم کے ملازمین کو گریڈ 9 سے 14، 14 سے 16 اور 16 سے 17 میں اپ گریڈ کیا گیا، ملازمین کی اپ گریڈیشن کے لیے ٹائم اسکیل پالیسی اپنائی گئی تھی، ملازمین کہتے ہیں کہ ٹائم اسکیل کو پروموشن تصور کرتے ہوئے پری میچور انکریمنٹ بھی دیا جائے، پروموشن اور اپ گریڈیشن کا معیار الگ الگ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس نوٹیفکیشن کا آپ ذکر کر رہے ہیں اس میں ٹائم اسکیل کا ذکر نہیں ہے،یہ ساری کنفیوژن اپ گریڈیشن کے بجائے لفظ پروموشن لکھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی، حکومتی اداروں کو کمیونیکیشن کے لیے الفاظ کے چناؤ میں احتیاط کرنی چاہیے، دفتری خط وکتابت میں وہی الفاظ استعمال کیے جائیں جو سول سرونٹ رولز میں دیے گئے ہیں، چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ قوم کا پیسہ آپکی جیب سے نہیں جاتا اس لیے آپ کو مسئلہ نہیں، آپ کے ایک جملے سے حکومت پر اربوں روپے کا بوجھ پڑ جاتا ہے، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن والے جان بوجھ کر ایسے مسائل پیدا کرتے ہیں،پتا نہیں کیسے کیسے لوگ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں بٹھائے ہوئے ہیں،کیوں نہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور فنانس ڈویژن کا فرانزک آڈٹ کرا لیا جائے۔