کراچی کا مقدمہ کب تک چلے گا

510

کراچی قائد اعظمؒ کا شہر ہے، یہ شہر بانیان پاکستان کا شہر ہے، آج بانیان پاکستان کی اولادیں اس شہر کی اصل طاقت ہیں، اس شہر میں جہاں کبھی رات نہیں ہوتی تھی، اس شہر کی سڑکیں صبح کو پانی سے دھوئی جاتی تھیں، روز صبح گھروں سے کچرا اُٹھا لیا جاتا تھا، صبح سویرے سٹرکوں پر جھاڑو دی جاتی تھی، ہر رنگ و نسل، قوم، فرقوں کے لوگ پیار ومحبت سے رہتے تھے۔ پیپلز پارٹی پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت بنی اس شہر نے بھی دل سے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا مگر اس پارٹی نے کراچی والوں کے ساتھ نہ اُس وقت اچھا کیا اور نہ اب اچھا کررہی ہے۔ بھٹو صاحب کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ سرکاری نوکریوں کے لیے کوٹا سسٹم کا نفاذ ہوا اور اس ڈومیسائل کو دو نام دے دیے گئے۔ شہری اور دیہی یعنی شہری علاقوں کے رہنے والوں کو 40فی صد اور گائوں اور دیہات کے لوگوں کے لیے 60 فی صد نوکری کا قانون بنادیا گیا۔ ایک اہم بات جس کو شاید آج تک کوئی نہیں جان پایا، یہ کہ لسانیت بھٹو صاحب کے دور ہی سے شروع ہوگئی تھی، بات یہ ہے کہ 1947ء کے بعد جو لوگ ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تھے، انگریزی اور اردو میں ماہر بلکہ زندگی کے ہر شعبے کے ماہر مہاجرین میں موجود تھے، ہر بڑے سرکاری عہدے پر اردو بولنے والے محب وطن موجود تھے ملک پر کوئی قرض نہیں تھا۔ نہایت ایمانداری سے ملک کا نظام چل رہا تھا مگر ایوب خان نے اعلیٰ سرکاری افسران جو ملک کے لیے کسی انمول ہیرے سے کم نہ تھے جن کی تعداد اندازے کے مطابق 300 سے زیادہ تھے ان کو فارغ کردیا گیا اور اُن کی جگہ من پسند افراد کو لگا دیا گیا۔ اصل بگاڑ وہیں سے شروع ہوا۔ پھر بھٹو صاحب نے کوٹا سسٹم نافذ کردیا۔ اُس زمانے کے اردو بولنے والے قائدین نے اس کو ختم کرنے کے مطالبات کیے۔ پروفیسر غفور بھی کراچی کی آواز کو بلند کرتے رہتے تھے۔ سید منور حسن بھی اُن کے ساتھ ظہور حسن بھوپالی بھی آواز حق بلند کرتے رہتے تھے۔ پہلے حق پرست لیڈر تھے جو اس اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے تھے جس کی پاداش میں اُن کو شہید کردیا گیا۔
کراچی کے نوجوان احساس کمتری کا شکار تھے تو ایک طلبہ جماعت کراچی میں نمودار ہوئی جس کا نام APMSO تھا۔ کراچی یونیورسٹی کے چند طلبہ نے یہ جماعت بنائی اور مہاجر کا نعرہ لگایا۔ آج کی مہاجر اتحاد تحریک کے سربراہ ڈاکٹر سلیم حیدر بھی اس کا حصہ تھے۔ جو بعد میں الطاف حسین سے الگ ہوگئے۔ ایم کیو ایم 1986سے شہر کراچی کی وارث بن گئی، کراچی والے الطاف حسین کی شکل دیکھنے کے لیے کئی کئی گھنٹے روڈوں پر کھڑے ہوتے۔ خیر ایم کیو ایم مضبوط سیاسی جماعت بن گئی، لوگ اس کے کارکنوں سے ڈرتے تھے پھر الطاف حسین سے بھائی کا سفر شروع ہوگیا۔ فاروق ستار اور سلیم شہزاد ایم این اے بنے، بلدیہ کے مالک بنے، وزیراعلیٰ سندھ جام صادق مرحوم الطاف حسین کے اچھے دوست بن گئے۔ کراچی میں ہر طرف پتنگ کا راج تھا، بلدیہ، KDA، واٹر بورڈ، KBCA، اسٹیل مل میں سیاسی بنیاد پر ایم کیو ایم کے ذمے داران کو نوکریاں ملیں پھر الطاف حسین خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرکے لندن کے شہری بن گئے۔ اتار چڑھائو کا سلسلہ چلتا رہا کام ضرور ہوا مگر تھوک لگا کر ہر MNA-MPA لکھ پتی پھر کروڑ پتی بن گیا مگر کراچی اور کراچی والوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ بس عید اور بقر عید پر کراچی والے یاد آجاتے تھے۔
اللہ نے ایم کیو ایم کو وہ طاقت اور عزت سے نوازا تھا کہ آج کراچی صوبہ بن چکا ہوتا۔ مہاجر تحریک متحدہ میں کیا بدلی آفاق احمد اور عامر خان اس تحریک سے الگ ہوگئے۔ دوسری طرف ڈاکٹر سلیم حیدر اس وقت سے لے کر آج تک مہاجر صوبے کی بات کررہے ہیں مگر اب نہ وہ وقت رہے نہ وہ حالات آگے چل کر ان کو کوئی کامیابی ملے گی اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا پھر ایک بار اللہ نے ایم کیو ایم کو ایک سنہری موقع دیا اقتدار جنرل (ر) پرویز مشرف کے ہاتھوں میں آگیا۔ اس زمانے میں بھی کراچی کا برا حال تھا۔ سید مصطفی کمال سٹی ناظم تھے ان کی تو لاٹری نکل گئی اربوں کا فنڈز ان کو کراچی کی تعمیر کے لیے ملا۔ وہ کیا تھے یہ سب پرانے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔ خیر ان کا بھی ایک فرنٹ مین تھا جو ٹھیکے داروں سے ایڈوانس کمیشن لیتا تھا ان کے زمانے میں ٹھیکے داروں کے کوئی بل نہیں رکتے تھے۔ ہمارے ملک میں کرائم کا طریقہ الگ ہے۔ White Color Crime کو پکڑنا آسان کام نہیں ہوتا اور ملک کے ہر بڑے آدمی نے یہ ظلم اس ملک کے ساتھ کیا ہے۔
سابق صدر آصف زرداری، پرویز مشرف، میاں صاحب، ملک ریاض، جہانگیر ترین۔ ایک مصطفی کمال ہی نہیں متحدہ میں تو لمبی فہرست ہے مگر یہ سب قسم کھا سکتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ صاف ہیں۔ بیوروکریسی کا بھی انداز کچھ ایسا ہی ہے۔ ہاتھ سب کے صاف ہیں مگر مورخ کی تو آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ آج نہیں تو بہت جلد ملک کو لوٹنے والوں کا حساب ضرور ہوگا۔ ہمارے ملک میں تو چوری اور سینہ زوری کا نظام چل رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پیپلز پارٹی اور خود پی ٹی آئی کے لوگ غیر قانونی کاموں میں ملوث نظر آتے ہیں۔ 73 سال میں قوم نے کبھی جماعت اسلامی کو آزمانے کی کوشش نہیں کی، اس جماعت کی سب سے زیادہ خاص بات اس کی ایماندار قیادت ہے۔ یہ کراچی جو بری طرح تباہ ہوچکا ہے اردو بولنا کراچی والوں کے لیے جرم ثابت ہورہا ہے۔ جب تک اسلام آباد میں اردو بولنے والے افسران موجود رہے ملک کا نظام ایمانداری سے چلتا رہا۔ جنرل یحییٰ خان نے مہاجر بیورو کریسی سے نجانے کون سی دشمنی نکالی اس زمانے کے 19 اور 20 گریڈ کے افسران سرکاری کوارٹرز میں رہتے تھے۔ موٹر سائیکل تک ان کو نصیب نہیں تھی۔ آج 16 گریڈ سے اوپر والوں کا جائزہ لے لیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ وزیراعظم صاحب اس کراچی پر رحم فرمائیں ہر مہینے ایک دورہ کریں اور فوری طور سے ہنگامی بنیادوں پر کراچی کی تعمیر کے احکامات جاری کریں۔ کراچی کو محبت، پیار، توجہ کی ضرورت ہے۔