طویل قربانیوں کے بعد اسلام کے نفاذ کے نام پر یہ وطن عزیز ’’پاکستان‘‘ معرض وجود میں آیا تو پاکستان مخالف قوتوں نے اپنا کھیل کھیلنا شروع کردیا، جن میں قادیانی گروہ سرفہرست ہے، آنجہانی قادیانی ظفر اللہ خاں نے وزارت خارجہ کے قلمدان سے فتنہ مرزائیہ کو پرموٹ کیا اور بیرون ممالک سفارت خانوں کو قادیانی تبلیغ کے اڈوں میں تبدیل کرکے رکھ دیا، ظفراللہ خاں نے اپنی سرکاری حیثیت میں کراچی کے ایک جلسہ ٔ عام میں قادیانیت کو زندہ مذہب اور اسلام کو مردہ مذہب قرار دیا جس سے ملک بھر میں سخت اشتعال پیدا ہوا، قادیانی سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے بلوچستان کو ’’احمدی اسٹیٹ‘‘ بنانے کی بات کی اور 1952ء کو قادیانیت کا سال قرار دیا، 1952ء ختم ہونے پر بانی ٔ احرار امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے فرمایا کہ ’’1953ء‘‘ ہمارا سال ہے، مجلس احرار اسلام جو انتخابی سیاست سے علٰیحدگی کا اعلان کرچکی تھی کہ مسلم لیگ اپنے ’’اسلامی پاکستان‘‘ کے ایجنڈے کو آسانی سے آگے بڑھائے اور احرار پر یہ الزام نہ لگے کہ انہوں نے ہمیں کام نہیں کرنے دیا، احرار ساری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے تھے، جب پانی سر سے گزرنے لگا تو ملک کے تمام مکاتب فکر کو کراچی میں اکٹھا کرکے ’’آل پارٹیز مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کے سربراہ مولانا ابوالحسنات قادریؒ کو بنایا گیا اور درج ذیل مطالبات حکمرانوں کے سامنے رکھے گئے۔
٭ لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
٭ مسٹر ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ سے الگ کیا جائے۔
٭ قادیانیوں کو سول اور فوج کے کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے۔
٭ ربوہٰ کی بقیہ اراضی پر مہاجرین کو آباد کیا جائے۔
مسلم لیگی حکمرانوں نے اہل وطن کے مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے یہ کہا کہ اِس سے ’’امریکا ہماری گندم بند کردے گا‘‘۔ (آج کہا جا رہا ہے کہ ڈالر بند کردے گا) مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے راست اقدام کا فیصلہ کیا اور سربکف ہو کر میدان عمل میں کود پڑے، کراچی، ملتان، ساہیوال، لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، فیصل آباد اور دیگر مقامات پر گرفتاریوں سے جیلیں بھر گئیں، تحریک زور پکڑ گئی اور نشہ ٔ عشق محمدؐ سے سرشار دیوانے سینہ سپرہو کر گولیاں کھاتے رہے، حکومت نے ظلم و جبر کی اِنتہا کردی، مارشل لا کا جبر بھی سب سے پہلے لاہور میں تحریک ختم نبوت پر ہی آزمایا گیا، 5 اور 6 مارچ 1953ء کو سب سے زیادہ گولی چلی، لاہور کے مال روڈ کو شہداء کے خون سے لہولہان کردیا گیا اور وطن عزیز کو عالمی استعمار کی مستقل آماج گاہ بنا دیا گیا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے، سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے فرمایا تھا کہ شہدائے ختم نبوت کے خون کے نیچے میں ایک ٹائم بم چھپا کر جارہا ہوں جو و قت آنے پر پھٹے گا اور قادیانیت کے اس فتنہ کو بہا کر لیجائے گا، جس کو کوئی روک نہ سکے گا، پھر دنیا نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں 1974 کی پارلیمنٹ میں لاہوری ومرزائی قادیانیوں کو ایک طویل بحث کے بعد ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا گیا، شہداء ختم نبوت کا خون اپنا راستہ بناتا گیا اور صدر ضیاء الحق کے ہاتھوں 1984ء میں امتناع قادیانیت ایکٹ جاری ہوا جس کی رو سے قادیانیوں کو شعائر اسلام استعمال کرنے سے روک دیا گیا، اِنہی شہداء ختم نبوت کو مارچ میں ہرسال خراج عقیدت پیش کرکے ہم اپنا لہو گرم رکھنے کا بہانہ تلاش کرتے ہیں اور احرار کے خون میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد رچ بس چکی ہے، جس سے الگ رہنا ہماری موت ہے، ہم زندگی کو ترانہ ٔ احرار سے منور کیے ہوئے ہیں اور کسی مصلحت یا مفاد کو آڑے نہ آنے دینے کی مشق ساتھ ساتھ کرتے بھی رہتے ہیں، اِنہی حوالوں سے ہم مارچ 1953ء کی تحریک میں مارچ پاسٹ کرنے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی یاد میں مارچ 2021ء میں شہداء ختم نبوت کانفرنسوں کے ذریعے تجدید عہد کررہے ہیں کہ احرار کے لگائے ہوئے اس پودے کی آبپاری ہی میں زندگی گزاردیں گے۔ اس موقع پر ہم آغا شورش کاشمیری مرحوم کی درج ذیل تحریر پیش خدمت کرتے ہیں تاکہ تحریک ختم نبوت 1953ء کو کچلنے والوں کی تصویر سامنے آ سکے۔
’’بلا شبہ اس وقت تحریک پسپا ہوگئی، خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بعد لادین عناصر کا حوصلہ بڑھ گیا، ملک غلام محمد نے انقلاب کیا تو سردار عبدالرب نشتر کو بھی ان کے اسلامی ذہن کی پاداش میں کابینہ سے حذف کردیا میاں مشتاق احمد گورمانی وزیر داخلہ تھے، مولانا ظفر علی خاں کی شدید علالت کے پیش نظر راقم انہیں مولانا اختر علی خاں کی رہائی پر آمادہ کررہا تھا کہ ان کے دولت کدہ پر سکندر مرزا آگئے۔ مرزا ان دنوں ڈیفنس سیکرٹری تھے، انہیں معلوم ہوا کہ مولانا اختر علی خاں کی رہائی کا مسئلہ ہے تو بھڑک اٹھے۔ فرمایا کہ وہ رہا نہیں ہوسکتے۔ راقم نے عرض کیا کہ ان کے والد بیمار ہیں۔ کہنے لگے کہ وہ خود تو بیمار نہیں اسی کے پیش نظر اختر علی خاں کو رہا کردیا جائے۔ سکندر مرزا نے باپ اور بیٹے دونو ں کو گالی لڑھکا دی اور کہا ’’دونوں کو مرنے دو‘‘۔ راقم نے مرزا صاحب کو ٹوکا کہ ہفتہ کو پہلے آپ کا بیٹا ہوائی حادثہ میں موت کی نظر ہوگیا ہے۔ اس قسم کے الفا ظ آپ کو نہ بولنا چاہئیں، گورمانی صاحب نے راقم کے تیور دیکھ کر صحبت ختم کردی۔ لیکن مرزا صاحب نے یہ فرمایا یہ کابینہ کی غلطی ہے کہ اس نے ان ملاؤں کو پھانسی نہیں دی۔ ہمارے مشورے کے مطابق پندرہ بیس علماء کو دار پر کھنچوا دیا جاتا یا گولی سے اڑا دیا جاتا تو اس قسم کے جھمیلوں سے ہمیشہ کے لیے نجات ہوجاتی۔ جس صبح دولتانہ وزارت برخاست کی گئی اس رات گورنمنٹ ہاؤس لاہور میں سکندر مرزا کا ایک ہی بول تھا، مجھے یہ نہ بتاؤ کہ فلاں جگہ ہنگامہ فرو ہوگیا یا فلاں جگہ مظاہرہ ختم کر دیا گیا۔ مجھے یہ بتاؤ وہاں کتنی لاشیں بچھائی ہیں۔ کوئی گولی بیکار تو نہیں گئی۔ عبدالرب نشتر راقم کے بہترین دوست تھے ان سے اس مسئلے پر گفتگو ہوئی تو فرمایا۔ جن لوگوں نے شیدائیاں ختم نبوت کو شہید کیا اور ان کے خون سے ہولی کھیلی ہے میں اندر خانہ کے راز دار کی حیثیت سے جانتا ہوں کہ ان پر کیا بیت رہی ہے۔ اور وہ کن حادثات و سانحات کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب کا اطمینان سلب کرلیا اور ان کی روحوں کو سرطان میں مبتلا کردیا ہے‘‘۔ (شورش کاشمیری مرحوم، تحریک ختم نبوت، صفحہ 142)
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ شہداء جنگ یمامہ سے لے کر شہداء تحاریک ختم نبوت 1953ء، 1974ء، 1984ء سے تاحال اس راستے کے شہیدوں کے مشن کی تکمیل کے لیے تمام مکاتب فکر عقیدہ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کے لیے ایک اکائی بن جائیں اور 1973 کے دستور کی بالادستی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے والے بن جائیں، اللہ تعالیٰ اس ملک کو امن کا گہوارہ بنا دیں اور قیام ملک کے مقاصد بانی ٔ پاکستان کے وژن کے مطابق اپنی تکمیل تک پہنچ جائیں۔ آمین یارب العالمین!