ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی

522

اس وقت پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق چھہتر زبانیں جبکہ دنیا میں چھ ہزار پانچ سو زبانیں بولی جاتی ہے، مگر جو بولی اس وقت مسلم لیگ(ن) میں بولی جارہی ہے وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی، پکے اور سچے، کھرے کارکن مسلم لیگ میں پریشان ہیں، اس وقت راجا محمد ظفر الحق ایک ایسے رہنماء ہیں جو 1956 میں گریجویشن مکمل کرتے ہی مسلم لیگ شامل ہوئے، انہیں مسلم لیگ میں شامل ہوئے آج پینسٹھ برس ہوچکے ہیں، اور آج کے نوزائدہ مسلم لیگی اگلی صفوں میں آرہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج علم و فن دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے یہی وجہ ہے کہ جن کے پاس علم ہے انہیں مسلم لیگ میں دوسری صف میں بھی جگہ نہیں مل رہی اور جن کے پاس صرف فن ہے وہ ہراول دستے میں شمار کیے جارہے ہیں آج المیہ ہی یہ ہے کہ بانی پاکستان بابائے قوم محمد علی جناح ؒ کا صرف نام رہ گیا ہے، مسلم لیگ ان کے نظریات فراموش کرتی چلی جارہی ہے، مارچ1940 بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے تبدیلی کا سال تھا کہ23 مارچ کو لاہور میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی، آج پھر مارچ کا مہینہ ہے اور2021 ہے یہ 98 برس کا سفر ہے اور ایک صدی مکمل ہونے والی ہے مگر ہم کیا دیکھتے ہیں کہ وہ مسلم لیگی جنہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زیارت نصیب ہوئی، ان کی گفتگو سننے کا موقع ملا، ان کی شخصیت کو قریب سے دیکھا اور ان کے خیالات کو دل میں اتارا، وہ آج مسلم لیگ(ن) میں اجنبی قرار پارہے ہیں۔ وہ معاشرہ کبھی محفوظ نہیں رہ سکتا جہاں بزرگ نسل کا ادب اور احترام متاثر ہوجائے، انہیں ادب کے جائز مقام سے محروم کردیا جائے۔ مسلم لیگ ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک خاندان ہے، اسلامی معاشرے میں خاندان کی بہت اہمیت ہے اور اسے مستحکم رکھنے کا معیار بھی بتادیا گیا یہ گھر ہی جہاں سے بچوں کی جسمانی افزائش کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کا عمل بھی ہوتا ہے بچہ بڑوں سے بات کرنے کا طریقہ، اٹھنے بیٹھنے کا انداز، چھوٹے
بڑے کے احترام کا طریقہ سیکھ رہا ہوتا ہے کسی فرد کی روح کے لیے عمدہ اخلاق اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا اس کے جسم کے لیے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔
مجھے نواز رضا کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ مسلم لیگ(ن) میں جن حضرات کی وجہ سے راجا محمد ظفر الحق اور ان جیسے زیرک، قابل احترام اور معاملہ فہم، دین کا علم رکھنے والے علم دوست رہنماء نظر انداز کیے جارہے ہیں انہیں اور ان کا ساتھ دینے والوں کو جواب دہ ہونا پڑے گا، یاد رکھیے کہ اللہ بزرگی کا خیال اور لحاظ رکھنے والا ہے، وہ سفید بالوں کو حیاء کی علامت سمجھتا ہے، یہ کون لوگ ہیں جنہیں مسلم لیگ(ن) میں سفید بالوں کی بزرگی پر اہمیت دی جانے لگی ہے؟ کیا ان کی اہلیت، قابلیت، معاملہ فہمی اور علم دوستی مسلمہ ہے؟ کیا ان کا تجربہ سفید بالوں سے بڑھ کر ہے، ایسا کوئی معیار ان میں ہمیں نظر نہیں آرہا، ہاں البتہ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہیں بائیں بازو کا پلڑہ پسند ہے، جنہیں قائد اعظم کا پیروکار ہر نظریاتی مسلم لیگی اپنی راہ کا پتھر معلوم ہوتا ہے، سینئر مسلم لیگی رہنمائوں کے تجربات سے فیض یاب ہونے کی ضرورت ہے، مگر مسلم لیگ(ن) میں جونیئر قیادت ہاتھ میں ریمورٹ پکڑ کر اپنے مطلب اور پسند کا چہرہ دیکھنے کی متمنی ہے، یہ طرز عمل اصلاح احوال کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوگا، یہ بات ذہن میں رہے کہ جس صبح نو کے لیے تبدیلی لائی جارہی ہے وہ شام غریباں ثابت ہوگی، سدھار کے بجائے بگاڑ پیدا ہوگا مسلم لیگ(ن) کو اگر ووٹ کو عزت دو کے اپنے بیانیے پر رہنا ہے تو اسے ڈنکے کی چوٹ پر رہنا ہوگا، مصلحت کی چھت کے نیچے پناہ نہیں لینی چاہیے، اسے اپنے بیانیے کی کامیابی کے لیے تجربہ اور فہم چاہیے کیونکہ یہ تدبر کا کھیل ہے جلد بازی اور نقش بر آب کے اس کھیل میں ضمیر، شعور کا احساس بھی چھن جائے گا، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت اپنے کام میں، اپنے احساس میں، اپنی ذمے داریوں میں سنجیدہ کیوں نہیں؟ مسلم لیگ(ن) میں ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، مسلم لیگ(ن) کو واقعی سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے پہلے سے کہیں زیادہ، ضرورت ہے۔