میں ایک عورت ہوں، کمزور ہوں اور کمزور جان سے پیدا کی گئی ہوں۔ میں جب خود کو تصور میں صدیوں پہلے کے دورِ جہالت میں لے جاکر عورت کی حالت ِ زار دیکھتی ہوں جہاں اشرف المخلوقات میں سے عورت کو حقیر ترین مخلوق سمجھا جاتا تھا، دنیا میں نہ اس کے حقوق تھے اور نہ معاشرے میں کوئی عزت، بلکہ اس کے ساتھ جنگلی مخلوق جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ عیسائیت میں عورت کے بارے میں نظریہ یہ تھا کہ وہ گناہ کی ماں اور بدی کی جڑ ہے۔ مرد کے لیے گناہ کی تحریک کا سرچشمہ اور جہنم کا دروازہ ہے۔ تمام انسانی مصائب کا آغاز عورت ہی سے ہوا اور وہ شیطان کی سب سے بڑی آلہ کار ہے۔ روم، ایران اور مصر میں عورت کو نہایت کم درجے کی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ مرد کو حق حاصل تھا کہ وہ اِسے قتل کرسکتا ہے۔ اس کی تمام جائداد، تمام حقوق قانونی طور پر اس کے شوہر کے سپرد کیے جاتے تھے۔ ملک فارس موجودہ ایران کی حالت یہ تھی کہ باپ بیٹی اور بھائی کا بہن کو حق زوجیت میں لینا کوئی معیوب نہ تھا۔ فارس کے بادشاہ یزدگرد ثانی نے اپنی حقیقی بیٹی سے نکاح کیا اور پھر اسے قتل کر ڈالا۔ ہندوستان میں عورتوں کی بابت ہندوں کا رویہ نفرت انگیز رہا۔ شوہر کے فوت ہونے کے بعد شوہر کے ساتھ اس کی عورت کو بھی جلا دیا جاتا تھا۔ ہندومت میں بیوی خاوند کے بھائیوں کی لونڈی اور لڑکی باپ کی وارث نہیں بن سکتی تھی۔ عرب میں غلے کے بدلے عورتوں کو بھی رہن رکھا جاتا تھا۔ عورتوں کی باہمی تبدیلی کا رواج عام تھا، جب کہ بیٹی کو زندہ درگور کرنا عرب میں معمول کی بات تھی۔ جب عورت پر ظلم حد سے بڑھ گیا تو اس اندھیرے کو نور اسلام سے تبدیل کرنے کے لیے خالق دو جہاں نے رحمت دوجہاں سیدنا محمد عربیؐ کو مبعوث فرمایا۔ نبی کریمؐ نے عورت کو وہ تمام حقوق اور اختیار عطا کیے جس کی اسے ضرورت تھی۔
نبی کریمؐ اس کے حقوق کے محافظ بن کر دنیا میں تشریف لائے، اور عورت کے زخموں کا مداوا کیا۔ انہوں نے اسے حقیقی مقام دلا کر نئی زندگی بخشی۔ عورت کے قدموں تلے جنت کا اعلان کرکے اسے مردوں سے بھی بلند درجہ عطا فرمادیا۔ اسے باجماعت نماز سے فراغت، قانونی گواہی میں رخصت، جہاد اور قتال فی سبیل اللہ سے رخصت دے کر احسان عظیم فرمایا۔ نیز فرمایا: ’’دنیا ساری کی ساری متاع ہے، اور اس کی سب سے بہتر متاع صالح عورت ہے‘‘۔ (مسلم: کتاب النکاح) عورت کو وراثت میں حق دلوایا، اس کے باپ، بھائی اور بیٹے کو اس کی کفالت کا ذمے دار ٹھیرایا۔ شادی میں لڑکی کی رضا مندی کو نکاح کے لیے لازمی شرط قرار دیا۔ ناپسندیدہ شوہر کے معاملے میں عورت کو خلع اور فسخ اور نکاح کے وسیع اختیارات دیے۔ عورت کے کردار پر اٹھنے والی غلط آواز کو قذف کا مرتکب ٹھیرایا۔ ریاست کے معاملات میں اس کی رائے، مشورہ اور محاسبہ کو اہمیت دی۔ عورت کے بیوہ یا مطلقہ ہونے کی صورت میں اسے دوسری شادی کی اجازت دی۔ عورت کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے ملازمت اور کاروبار کرنے کی اجازت دی۔ لیکن ہمارا معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔ یہ اسلامی معاشرہ ہوتا تو، عورت کو غیرت کے نام پر قتل نہ کرتا، اسے کاروکاری نہ کرتا، قرآن سے شادی نہ کرواتا، اسے کمزور اور مجبور پاکر زیادتی کا نشانہ نہ بناتا۔ بلکہ اسے وہ حقوق عطا کرتا جو نبی مہربانؐ نے اس کے لیے متعین کیے تھے۔ ہمارے معاشرے کے کچھ اہل فکر نبی پاکؐ کی تعلیمات سے صرف نظر کرکے عورت کو اہل مغرب کی تقلید اور دور جاہلیت والے ماحول میں واپس لے جانا چاہتے ہیں، جہاں عورت کو اس کے حقوق مرد بننے کی صورت میں دیے جاتے ہیں۔ عورت کو بااختیار کرنے کا مغربی تصور ہمارے معاشرے میں بھی درآمد ہوچکا ہے۔ پچھلی چند دہائیوں سے ہم عورتوں کو نمایاں کرنے اور مردوں کے برابر لانے کی مہم شروع ہے۔ اس کا نتیجہ اباحیت، آوارگی، عزت و وقار کی پامالی، جنسی زیادتی، نظام خاندان کے انتشار، طلاق کی کثرت اور بن بیاہی مائوں اور باپوں کی سرپرستی سے محروم بچوں کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔
دوسری طرف خود مغربی عورت اس صورت حال سے پریشان ہو کر گھر کی محفوظ پناہ گاہ میں دوبارہ واپس جانے کی آرزو کرنے لگی ہے۔ Top Sante نامی برطانوی میگزین نے کچھ عرصے پہلے ایک سروے رپورٹ شائع کی کہ چورانوے فی صد ملازمت پیشہ خواتین کا کہنا ہے کہ وہ بیک وقت زوجیت، مادریت اور ملازمت کے تقاضے پورے کرتے کرتے بے دم ہو چکی ہیں اور سخت پریشان ہیں۔ میگزین کی ایڈیٹر نے برطانیہ، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئر لینڈ کی پانچ ہزار ملازمت پیشہ خواتین کے انٹرویو لے کر یہ جائزہ پیش کیا: It is Time for Superwoman to put back in her box اب وقت آگیا ہے کہ سپر ویمن واپس اپنے گھر کا رخ کرے اور اپنی اصل ذمے داریاں نبھائے۔ اس سروے میں اسی فی صد عورتوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ماں باپ دونوں کی کل وقتی ملازمت خاندانوں کے ٹوٹنے کا اصل سبب ہے۔ نیز یہ کہ ملازمت پیشہ عورتوں کے تعلقات اپنے شریک حیات مردوں کے ساتھ تلخ ہو جاتے ہیں، اس لیے بیش تر عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ مرد اپنا بوجھ اتنا نہیں اٹھاتے جتنا اٹھا سکتے ہیں۔ مسلسل کام کی وجہ سے عورتوں کی صحت پر برے اثرات پڑتے ہیں اور وہ مختلف امراض کا شکار ہو جاتی ہیں۔ سروے میں کہا گیا تھا کہ اگر معاشی مجبوریاں نہ ہوں تو اڑتالیس فی صد عورتیں صرف آرام کرنا پسند کریں گی، بتیس فی صد عورتیں گھرداری اختیار کرنے کا فیصلہ کریں گی اور صرف بیس فی صد عورتیں ملازمت جاری رکھنا چاہیں گی۔ دور جہالت اور مغربی تہذیب نے عورت کو حقوق کے نام پر دھوکہ دیا ہے، لیکن ہمارے معاشرے کے لبرل دانشور اپنی اعلیٰ اسلامی روایات کو چھوڑ کر دوبارہ دور جہالت میں عورتوں کو لیجانا چاہتے ہیں۔ صرف اسلام نے عورت کو تمام حقوق دیے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عورت کو اپنے حقوق کی پہچان نہیں ہے۔