راجا عرفان نے اپنے کالم میں اہم معلومات فراہم کیں جن کو پڑھ کر یہ احساس ہوا کہ ہر تعلیم یافتہ پاکستانی شہری کو بھی ملک کے حوالے سے معلومات ہونی چاہیے۔ آج میں ایف اے ٹی ایف کے متعلق بتائوں گا۔ اس ادارے کی لگائی ہوئی شرائط پر حکومت کچھ اقدامات کرنے جارہی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ملک کی اکثریت کو پتا ہی نہیں کہ ایف اے ٹی ایف کون سا ادارہ ہے اور اس کا کام ہے کیا؟ اس کی بنیادی وجہ ہمارا میڈیا اور سیاستدان ہیں۔ کیوں کہ آپ روزانہ ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں کہ اینکرز سیاسی موضوعات اور چٹ پٹے اور فضول بیانات پر تو ٹاک شو کرتے ہیں لیکن انتہائی حساس اور سنجیدہ موضوعات ان کی ترجیح نہیں ہوتے۔ ابن آدم کہتا ہے کہ دراصل میڈیا کا اصل کردار اپنے ملک کے عوام کو تعلیم دینا بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ فرمارہے تھے کہ یہودیوں کی غلامی نہیں کرنی اگر ایف اے ٹی ایف سے تعاون کریں گے تو یہ یہودیوں کی غلامی کے مترادف ہے۔ جب کہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں اگر ایف اے ٹی ایف سے تعاون نہ کیا تو پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سیاست دان حکومت کی مخالفت میں اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ قومی مفادات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
قارئین کرام 1989ء میں G-7 گروپ یعنی امریکا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، برطانیہ، اٹلی اور جاپان نے ایف اے ٹی ایف کی بنیاد رکھی جس کے اولین مقاصد ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کی روک تھام تھا۔ بعدازاں دنیا بھر میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنا بھی اس کا بنیادی مقصد قرار پایا۔ بعد میں اس کے ارکان کی تعداد 39 تک جا پہنچی۔ دنیا کے اہم ترین ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ اگر دہشت گردوں کی مالی معاونت نہ ہو تو ان کے لیے اسلحہ کا حصول اور نیٹ ورک کو قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ یہ سب ممالک اس بات پر متفق تھے کہ یہ فنڈنگ غیرقانونی آمدنی یعنی بلیک منی سے ہوتی ہے۔ جن ممالک میں معیشت کو دستاویزی شکل نہیں دی جاتی اُن ممالک سے دہشت گردوں کو فنڈنگ ملنا آسان تر ہے۔ لہٰذا جن ممالک کی معیشت غیر دستاویزی تھیں اُن کو گرے لسٹ میں ڈال کر تنبیہ کی گئی کہ اپنی معیشت، تجارت، لین دین کو دستاویز کی شکل دیں، ٹیکس کا دائرہ کار بڑھا کر تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں۔
ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں لاکھوں لوگ ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ماسوائے سرکاری افسران و ملازمین یا ملازمت پیشہ حضرات جن کا ٹیکس خود بخود ہی حکومت کاٹ لیتی ہے۔ 2018ء میں مسلم لیگ کی حکومت میں ایف اے ٹی ایف کے ذیلی ادارے ایشیا پیسفک گروپ نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا اور اس کے لیے 27 پیرامیٹرز طے کیے جن میں چند اقدامات کے لیے پاکستان کو قانون سازی کرنی پڑی اگر یہ اقدامات نہ کیے جاتے تو پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا جاتا، جس طرح سے ہمارے پڑوسی ملک ایران کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔ ایران جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے اس کے باوجود اس کی کرنسی کی شرح اتنی گر چکی ہے کہ اگر جیب میں چند ہزار ڈالر ڈال کر کرنسی ایک چینج جائو تو بدلے میں ایرانی کرنسی اتنی مقدار میں ملتی ہے کہ بوریوں میں بھر کر کندھے پر لاد کر لے جانی پڑتی ہے۔ پاکستان جیسا ملک کس جگہ کھڑا ہوتا۔ اگر حکومت بروقت اقدامات نہ کرتی تو انڈیا کی پوری کوشش تھی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ نہ تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پاکستان کو قرض دیتا اور نہ ہی کوئی ملک پاکستان کے ساتھ تجارت کرتا اور نہ ہی کسی ملک، ادارے یا بین الاقوامی کمپنی کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی اجازت ہوتی، پھر کیا ہوتا عوام بھوک سے مرتے، افراط زر بڑھ جاتا، پہلے ہی عوام کا حال تو آپ کے سامنے ہے۔ حکومت نے فوری طور پر فنانشل انٹیلی جنس یونٹ بنا کر ایشیا پیسفک گروپ کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھتے ہوئے بروقت نہ صرف متعدد اقدامات کیے بلکہ ضروری قانون سازی بھی کی، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اپوزیشن نے اس قانون سازی میں تعاون کرنے سے یکسر انکار کردیا اور اپنے خلاف نیب کے مقدمات پر ریلیف کی شرائط رکھ دیں جس پر حکومت کو جوائنٹ سیشن رکھ کر قانون سازی کرنی پڑی، اگر ترکی، ملائیشیا اور خصوصاً چین تعاون نہ کرتے تو انڈیا پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے میں کامیاب ہوچکا ہوتا۔ ایف اے ٹی ایف کے 27 پیرامیٹر میں سے بیش تر پر عملدرآمد اور قانون سازی کے بعد پاکستان کی معیشت کو دستاویزی شکل اختیار کرنے میں بڑی مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ اب کالا دھن چھپانا مشکل ہوگا۔ حوالہ اور ہنڈی کا کاروبار کرنے والے قانون کی گرفت میں آرہے ہیں۔ چند ماہ سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے۔ مولانا صاحب، مریم نواز ینڈ کمپنی، بلاول زرداری حکومت کے خلاف تحریک چلارہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ وقت تحریک چلانے کا نہیں ہے حکومت کو کام کرنے دیا جائے تھوڑا وقت تو لگے گا۔ دراصل جو کام بے نظیر بھٹو شہید، میاں نواز شریف کو کرنا چاہیے تھا وہ اُس وقت نہیں ہوسکا۔ کاش اُس وقت کی حکومتیں ایف اے ٹی ایف کے احکامات پر عمل کرتیں تو ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔