اسلام نے عورت کو عزت دی‘حجاب سے خواتین خود کو پر اعتماد اور محفوظ سمجھتی ہیں

614

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) پاکستانی خواتین کے ملبوسات میں مغربی کلچر سے بیزاری کا رجحان سامنے آرہا ہے‘ ان میں حجاب کا رجحان بڑھ رہا ہے‘ جس کی بدولت خواتین کو ہرجگہ عزت اور احترام ملتا ہے‘معاشرے میں فحاشی اور عریانی کا بڑھتا ہوا عنصر بھی خواتین کو اسلامی تعلیمات حجاب کی طرف راغب کر رہا ہے‘ حجاب کرنے سے خواتین اپنے آپ کو پر اعتماد اور محفوظ سمجھتی ہیں اور دلی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں نے اپنے رب تعالیٰ کی مرضی اور حکم کو مانا ہے‘ موجودہ ذرائع ابلاغ عورت کو ایک بے باک اور بے حجاب عورت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان خواتین ونگ کے خارجہ امور کی ڈائریکٹر، سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد کی صاحبزادی و سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، جماعت اسلامی خیبر پختونخوا حلقہ خواتین کی رہنما، رکن صوبائی اسمبلی حمیرا خاتون، جماعت اسلامی کی رہنما و سابق رکن پختونخوا اسمبلی راشدہ رفعت اور جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامی تعلیم کی چیئرپرسن پروفیسر ثریا قمر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’خواتین میں پردے کا بڑھتا ہوا رجحان کیا ظاہر کرتا ہے؟ سمیحہ راحیل نے کہا کہ انسان کی فطرت میں حیا شامل ہے اور حجاب کی فطرت عورت کی فطرت میں ہے‘ وہ محفوظ بھی رہتی ہے‘ معاشرے میں بچیوں کو اس کا احساس ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی خواتین کے ملبوسات میں مغربی کلچر سے بیزاری اور حجاب کا رجحان بڑھ رہا ہے‘مسلم خواتین کے ساتھ دیگر مذاہب کی خواتین بھی اسکارف کو ترجیح دینے لگی ہیں‘ حجاب اور اسکارف کے استعمال میں اضافے کی ایک بڑی وجہ مختلف مغربی ممالک میں حجاب پر پابندی کا پہلو شامل ہے جس نے خواتین کو مشرقی اقدار کے احیا پر مجبورکیا ہے‘ دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کے علاوہ طالبات بھی حجاب کو ترجیح د ے رہی ہیں‘ خواتین میں مشرقی لباس پہننے کی بڑی وجہ مغربی ثقافت سے بیزاری ہے‘ اسلام نے عورت کو سب سے پہلے عزت دی اور معاشرے میں اسے فخر و عزت کا باعث بنایا ہے‘ حجاب معاشرتی طور پر خواتین کو تحفظ کا احساس دلاتا ہے اور میلی نگاہوں سے ان کو محفوظ رکھتا ہے‘ عام زندگی میں بھی ہمارا مشاہدہ ہے کہ اسکارف دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کی عزت اور احترام بڑھانے کا بھی باعث بنتا ہے‘ جامعات میں پڑھنے والی طالبات جو حجاب لیتی ہیں وہ زیادہ بااعتماد انداز میں کلاس میں پڑھ پاتی ہیں ‘ اللہ نے کورونا وائرس کے دور میں ساری انسانیت کو نقاب اڑھا دیا۔ حمیرا خاتون نے کہا کہ غیر مسلم اسلام کے حوالے سے گہرائی کے ساتھ معلومات حاصل کرنے کے بعد دین اسلام کی جانب راغب ہو رہے ہیں اور ان کا رجحان دین اسلام کی طرف بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے کیونکہ اب سوشل، الیکٹرونک اور پیپر میڈیا کے معاشرے پر اچھے اثراتِ بھی مرتب ہو رہے ہیں جس طرح کورونا وبا کے دوران واٹس ایپ گروپس بنائے گئے اور رمضان المبارک کو ایک اچھے طریقے سے گزارا گیا اوران گروپوں میں دینی پروگرامات اور لیکچرز ہوتے رہے لہٰذا میں سمجھتی ہوں کہ اب لوگوں تک دین کی دعوت کو پہنچانے کے لیے رسائی بھی آسان ہوگئی ہے‘ دوسری بات یہ کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے فحاشی اور عریانی کا بڑھتا ہوا عنصر بھی خواتین کو حجاب اوڑھنے کی طرف راغب کر رہا ہے ‘ با حجاب خواتین کو بغیر حجاب کی خواتین کی نسبت زیادہ سہولتیں ملتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے حیا ہر انسان کی فطرت میں ڈالی ہے جس کی وجہ سے اب ہماری نئی نسل او ر خصوصاً بچیوں میں حجاب کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ راشدہ رفعت نے کہا کہ عورتوں کے کردار کو ہر جگہ ان کے عمل کے بجائے ان کے ظاہری لباس کی کسوٹی پر زیادہ پرکھا جاتا ہے‘ کردار کی پختگی مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ضروری ہے‘ ہر مسلمان اسلام کا سفیر ہے‘بحیثیت مسلمان ہم قرآن و سنت کو اپنی زندگی سے الگ نہیں کر سکتے ہیں‘حجاب حکم الٰہی ہے اور قرآن پاک میں بیشتر مقامات پر عورتوں کو حجاب کی تلقین کی گئی ہے‘ اسکارف لینا اگرچہ ایمان پر عمل کا نام ہے‘ ایک مسلمان عورت حجاب اس لیے اوڑھتی ہے کہ یہ حکم الٰہی ہے اور حضورؐ نے اس کی ہدایت فرمائی ہے اور یقیناً عورتوں کا سر کو ڈھانپنا پاکیزگی اور ایمان کی علامت ہے۔ پروفیسر ثریا قمر نے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں حجاب کے رجحان میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے‘ انسان زیادہ عرصے مصنوعی ماحول میں نہیں رہ سکتا ہے‘ ذرائع ابلاغ کے ذریعے جو چیزیں دکھائی جا رہی ہیں وہ حقائق پر مبنی نظر نہیں ہیں ‘میڈیا اس اکثریت کو نہیں دیکھتا ہے جو ان چیزوں کو ناپسند کرتی ہیں‘ اہل پاکستان کا خمیر اسلام سے وابستہ ہے‘ اس کی تعلیمات انسان کے دلوں میں بسی ہوئی ہے‘ حق اور سچ کو کب تک دبایا جاسکتا ہے‘ ہر عورت اپنا تحفظ چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سوشل میڈیا اور دیگر ذارئع ابلاغ کے ذریعے ڈرامے یا فلمیں پیش کی جا رہی ہیں اس میں عورت کو ایک بے باک اور بے حجاب عورت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے یہ تمام چیزیں خواتین کی نمائندگی نہیں کرتی ہیں اور اس سوچ کی حامل خواتین کی تعداد بہت ہی محدود ہے۔