سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹ سے ہی ہوں گے، عدالت عظمیٰ

297

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) عدالت عظمیٰ نے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے میں کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے مطابق خفیہ رائے شماری سے ہوںگے تاہم ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا۔ عدالت عظمیٰنے چار ایک کی نسبت سے رائے دی ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہے ۔عدالت نے رائے میں کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تابع ہیں اس لیے اوپن بیلٹ کے ذریعے نہیں کرائے جاسکتے۔یہ الیکشن آئین کے آرٹیکل226کے تحت ہی ہوںگے ۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے اس لیے الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرائے ۔عدالت عظمیٰ نے سینیٹ الیکشن پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ انتخابات آئین اور قانون کے تحت ہی ہوںگے، سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں کرائے جا سکتے۔ عدالتی رائے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ عدالت عظمیٰ کے لارجر بینچ میں چارایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا گیا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے رائے سے اختلاف کیا۔ عدالت نے کہا کہ سینیٹ الیکشن آئین اور قانون کے تحت ہوتے ہیں۔ گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل پاکستان اور دیگر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت عظمیٰ نے رائے محفوظ کی تھی۔اپنی رائے میں عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کے لیے تمام اقدامات کر سکتا ہے،انتخابی عمل سے کرپشن ختم کرانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے،ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا، انتخابی عمل سے کرپشن ختم کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، الیکشن کمیشن کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کرسکتا ہے۔عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام ادارے الیکشن کمیشن کیساتھ تعاون کے پابند ہیں،پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے، سینیٹ کے الیکشن آئین کے آرٹیکل 226کے تحت ہی ہوںگے۔ قبل ازیں ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے سوال صرف آرٹیکل 226 کے نفاذ کا معاملہ ہے، کیا وجہ ہے کہ انتخابی عمل سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ترمیم نہیں کی جا رہی؟ انتخابی عمل شفاف بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں قرار دادیں منظور ہوتی ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدارتی ریفرنس 23 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں دائر کیا گیا تھا۔4جنوری کو5رکنی لارجر بینچ نے پہلی سماعت کی۔سیاسی جماعتوں کو بھی تحریری رائے دینے کی پیشکش کی گئی۔اٹارنی جنرل نے11 سے 17فروری تک دلائل مکمل کیے۔عدالت نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن)،جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی سمیت وکلا تنظیموں کا موقف بھی سنا۔ مجموعی طور پر20سماعتوں کے بعد عدالت نے رائے محفوظ کی تھی۔