سینیٹ الیکشن سے متعلق عدالت عظمیٰ کی رائے پر حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی خوش

260

اسلام آ باد(خبر ایجنسیاں +مانیٹر نگ ڈیسک) سینیٹ الیکشن سے متعلق عدالت عظمیٰ کی رائے پر حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی خوش۔سینیٹ الیکشن صدارتی ریفرنس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد وفاقی وزرا پر مشتمل حکومتی نمائندہ وفد نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان سے ملاقات کی جس میں انہوں نے فیصلے پر قانونی نکات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں شفافیت کی ضرورت ہے۔ وفد میں بابر اعوان، شہزاد اکبر، شفقت محمود، فیصل جاوید، وفاقی وزیر فواد چودھری اور آئینی ماہرین شامل تھے۔ ملاقات کے بعد الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دیگر وفاقی وزرا کے ساتھ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ بیلٹ پیپرز کی شناخت سے سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خریدوفروخت کو روکا جاسکتا ہے، ریفرنس پرعدالت عظمیٰ کی رائے ہی تحریک انصاف کا موقف ہے، ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں رہ سکتا، شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، الیکشن کمیشن کو تمام ٹیکنالوجی فراہم کر سکتے ہیں،الیکشن کمیشن کہے تو 2 گھنٹے میں بیلٹ پیپر چھپ جائیں گے تاہم آئین کی شق 220کے تحت حکومت کے تمام ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں، اپوزیشن جماعتوں کے میثاق جمہوریت میں بھی سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کا ذکر ہے۔ فواد چودھری نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ سینیٹ الیکشن کے لیے جو بیلٹ پیپر چھاپے گا وہ ٹریس ایبل ہو گا یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن فیصلہ کر لیتا ہے کہ ووٹ ٹریس ایبل ہو گا تو پھر اس حوالے سے ٹیکنالوجی موجود ہے اور بیلٹ پیپرز ایک دن میں چھپ جائیں گے۔جب کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشر یات سینیٹر شبلی فراز نے سینیٹ انتخابات سے متعلق ریفرنس پر عدالت عظمیٰ کی رائے سامنے آنے کے بعد اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن دھاندلی زدہ سسٹم کی حامی ہے،اوپن بیلٹ کے مخالف ملک میں کرپٹ نظام کا تسلسل چاہتے ہیں، عمران خان مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ تاریخی ہے جس میں بظاہر یہی لگتا ہے کہ انتخابات آئین کی دفعہ 226 کے تحت ہوں گے لیکن ساتھ عدالت عظمیٰ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ الیکشن کمیشن انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے ہر اقدام اٹھائے، اس کے علاوہ ووٹ کی رازداری حتمی نہیں ۔علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ٹوئٹ میںکہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میںکوئی آر ٹی ایس اور ڈسکہ دھند ٹیکنالوجی اب نہیں چلے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ آئین، ووٹ چوروں کی چالبازیوں،بدنیتی پر مبنی ریفرنسوں اور سازشی آرڈیننسوں سے بہت بالاتر ہے،اب کھمبے نوچتی کھسیانی بلیاں ٹیکنالوجی کا واویلا کر رہی ہیں،یاد رکھو کہ کوئی آر ٹی ایس اور ڈسکہ دھند ٹیکنالوجی اب نہیں چلے گی! ووٹ کی طاقت سے ڈرتے کیوں ہو؟۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے لیگی رہنماؤں کے ساتھ الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے صدارتی ریفرنس مسترد کردیا ہے،حکومت کے آرڈیننس کی اب کوئی حیثیت نہیں، عدالت عظمیٰ نے کچھ آبزرویشنز دی ہیں،یہ معاملہ اب پارلیمان کے پاس ہوگا،سب جماعتوں کی مشاورت سے ترامیم کی جائیں۔ شاہد خاقان عباسی کا کہناتھا ہم نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر سے بات چیت کی اور گزارشات رکھی ہیں،الیکشن کے طریقہ کار میں تبدیلی ممکن نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میںکہا کہ واضح طور پرنظر آرہا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے رائے دی ہے کہ 2021ء کا سینیٹ الیکشن آئین کے آرٹیکل226کے تحت ہو سکتا ہے،جب چیئرمین سینیٹ کا الیکشن چوری ہو رہا تھا تو عمران خان کو سینیٹ الیکشن کی شفافیت کا کوئی خیال نہیں تھا کیونکہ اس وقت وہ خود اس میںملوث تھے اور وہ خوشیاں منا رہے تھے، حکومت سینیٹ الیکشن کے حوالے سے جو صدارتی آرڈیننس لائی تھی وہ بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد کالعدم ہو جاتا ہے، عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو کوئی ہدایت جاری نہیں کی۔ا نہوں نے کہا کہ پہلے دن سے ہمارا مئوقف یہ تھا کہ سینیٹ کا الیکشن آئین کے تحت ہونا چاہیے اور اگر اس میںکوئی تبدیلی لانی ہے تو اسے آئینی ترمیم کے ذریعے ہی لایاجاسکتا ہے ۔