جیسے جیسے دن گزرتے جارہے ہیں سینیٹ انتخابات دلچسپ مراحل میں داخل ہوتے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی پر اسراریت بھی بڑھتی جارہی ہے سینیٹ کی اس پوری گہما گہمی میں آصف زرداری کے بروقت فیصلوں کا بڑا عمل دخل ہے ورنہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی شدت سے یہ رائے تھی کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر اور سندھ اسمبلی کو تحلیل کر کے سینیٹ انتخابات کو سبو تاژ کردیا جائے اور یہ کہ حکومت کو ایسا ٹف ٹائم دیا جائے کہ حکمران خود سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر جانے پر مجبور ہو جائیں، اس حوالے سے کچھ کچھ ن لیگ بھی مولانا کے موقف کی حامی تھی لیکن ن لیگ کے ارکان اسمبلی کی کثیر تعداد استعفے دینے پر آمادہ نہیں تھی۔ اگر مولانا کی بات مان لی جاتی تو پی پی پی اور ن لیگ دونوں سیاسی جماعتوں میں زبردست پھوٹ پڑجاتی۔ مریم نواز کا یہ بیان کے ڈیڑھ سو سے زائد استعفے میرے پاس آچکے ہیں سفید جھوٹ تھا۔
پیپلز پارٹی کسی طرح بھی سندھ کی حکومت کو چھوڑنا نہیں چاہتی اور نہ ہی یہ چاہتی ہے کہ کسی اور سیاسی جماعت یا اتحاد کی صوبہ سندھ میں بنیاد مضبوط ہو اس لیے پیپلز پارٹی نے موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے سلسلے میں پے در پے بیانات دینے شروع کردیے اور یہ کہا گیا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے ذریعے موجودہ حکومت کو گھر بھیج دے گی۔ پھر پی پی پی کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ وہ ضمنی انتخابات اور سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لے گی جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کی رائے تھی کہ کسی انتخاب میں حصہ نہیں لیا جائے لیکن پوری پی ڈی ایم میں آصف زرداری صاحب کا فیصلہ ہی غالب آیا اور ن لیگ اور جے یو آئی اتحاد کی دونوں بڑی پارٹیاں ضمنی انتخاب میں حصہ لینے پر تیار ہو گئیں۔ اس فیصلے کے نتیجے میں اور ضمنی انتخاب کے نتائج نے پی ڈی ایم کے بیمار جسم میںایک نئی روح پھونک دی۔
دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کی پریشانیاں بڑھتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں عمران خان بھی فکر مند نظر آرہے ہیں وہ صرف ایک نشست کرم والی ہی جیت سکے ہیں، پی ٹی آئی کراچی میں ہار گئی تھر کے علاقے میں پی پی پی بہت بڑے مارجن سے جیتی ہے اپنے شہر نوشہرہ میں عمران خان ہار گئے سیالکوٹ ڈسکہ کی نشست کا فیصلہ معلق ہے جس پر ن لیگ نے پورے حلقے میں ری پولنگ کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی نے بیس پولنگ اسٹیشنوں میں دوبارہ پولنگ کی بات کی ہے۔ ن لیگ کا کہنا ہے کہ پہلے ووٹ چوری ہوتے تھے انتخابات چوری کرلیے جاتے تھے اور اب یہ نوبت آگئی ہے کہ انتخابی عملے ہی کو چوری کرلیا گیا کہ ڈسکہ میں انتخابی عملہ ہی نہیں آیا۔ بہر حال اس کا جو بھی فیصلہ ہو مجموعی صورتحال یہ ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے پی ڈی ایم کو حوصلہ ملا ہے اور پی ٹی آئی بیک فٹ پر چلی گئی ہے۔ سیالکوٹ میں دوبارہ پولنگ ہوئی تو پی ٹی آئی کا جیتنا مشکل ہی نظر آتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی پوزیشن گر گئی ہے بلکہ اگر دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو پی ٹی آئی نے پہلے سے زیادہ ووٹ لیے ہیں اور وہ ہار کر بھی جیت گئی ہے۔ نوشہرہ میں جے یو آئی ایک مضبوط سیاسی اثر رکھتی ہے بلکہ وہ تنہا یہ سیٹ جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے دوسرے اس علاقے میں پی پی پی کے بھی اثرات ہیں تو ایک طرف چار بڑی اثر رسوخ رکھنے والی سیاسی جماعتیں، پی پی پی، ن لیگ اور جے یو آئی، وسیع اثر رسوخ والی اے این پی سمیت سات دیگر پارٹیاں ایک طرف اور پی ٹی آئی اکیلی دوسری طرف اور اس میں بھی پی ٹی آئی کا تنظیمی انتشار۔ اس کے باوجود کم مارجن سے ہار جانا کوئی قابل تشویش بات نہیں ہے۔
اب آئیے سینیٹ کے انتخاب کی طرف، اوپن بیلٹ کا آرڈیننس عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ اگر انتخاب کی شفافیت برقرار رکھنا مقصود ہے تو خفیہ رائے دہی کے بجائے اوپن بیلٹ پر سینیٹ کے انتخاب کرائیں جائیں، عمران خان کا یک بیان یہ بھی سامنے آیا ہے کہ پچاس سے ستر کروڑ کی باتیں چل رہی ہیں، دبئی میں لوگ نوٹوں کے تھیلے لیے بیٹھے ہیں۔
13مئی 2006 کو لندن میں پی پی پی اور ن لیگ نے میثاق جمہوریت کی دستاویز پر دستخط کیے جس میں ایک شق یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی طرح سینیٹ کے انتخابات بھی خفیہ بیلٹنگ کے بجائے اوپن بیلٹ پر کرائے جائیں گے اور اس کے لیے آئینی ترمیم بھی لائی جائے گی لیکن اب یہ دونوں جماعتیں اپنے ہی معاہدے سے انحراف کررہی ہیں۔ پی ڈی ایم کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اپنی پارٹی کے ارکان پر اعتماد نہیں اس لیے وہ اوپن بیلٹ پر انتخاب کرانا چاہتے ہیں۔
2018 کے انتخاب میں کے پی کے میں پی ٹی آئی کے 20 ارکان نے اپنے ضمیر کا سودا کیا تھا جن کو بعد میں عمران خان نے اپنی پارٹی سے نکال دیا تھا۔ اس وقت پی پی پی کے پانچ کے پی کے میں صوبائی اسمبلی کے رکن تھے تعداد کی روشنی میں ایک سینیٹر بھی منتخب نہیں ہو پاتا لیکن وہاں سے پی پی پی کے دو سینیٹرز کامیاب ہوئے تھے اس دفعہ کے انتخاب میں اگر خرید فروخت نہیں ہوئی تو پی ٹی آئی کے بڑی تعداد میں سینیٹر کامیاب ہو جائیں گے جس کے بعد سینیٹ میں پی ٹی آئی کے سینیٹروں کی تعداد نصف سے زیادہ ہو جائے گی۔ سینیٹ کے انتخاب میں پراسراریت اسی طرح بڑھ گئی ہے کہ اوپن بیلٹ کے صدارتی آرڈیننس کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا گیا ہے اب سارا انحصار عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر منحصر ہے۔ دوسری طرف سینیٹ کے الیکشن میں دلچسپی یوسف رضا گیلانی کی وجہ سے بڑھ گئی ہے پی ٹی آئی کی طرف سے حفیظ شیخ امیدوار ہیں ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ ماہر معیشت یعنی ٹیکنو کریٹ ہیں اور خامی یہ کہ وہ ماہر سیاست نہیں ہیں، جبکہ یوسف رضا گیلانی کی خوبی یہ کہ وہ ماہر سیاست ہیں اور خامی یہ ہے کہ وہ ٹکنو کریٹ نہیں ہیں۔ پی ڈی ایم کی طرف سے مولانا فضل الرحمن سینیٹ کے امیدوار بن سکتے تھے لیکن آصف زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں کھڑا کرکے پی ٹی آئی کو ایسا چیلنج دیا ہے کہ اس کی سانسیں پھولتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں، گیلانی صاحب کا کہنا ہے کہ بہت سے پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی خاموشی سے مجھے ووٹ دیں گے جہانگیر ترین کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ میری ان سے ملاقات تو نہیں ہوئی ہے لیکن وہ میرے رشتے دار ہیں بس آپ سمجھ جائیں اسی لیے سینیٹ کا الیکشن روز بروز دلچسپ ہوتا جارہا ہے۔