اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ کے 19 فروری کو ہونے والے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 18 مارچ کو پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ حلقے میں الیکشن کیلیے سازگار ماحول نہیں تھا جس کے بعد الیکشن کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے، پولنگ اسٹیشنز پر فائرنگ اور قتل و غارت ہوئی اور این اے 75 کے ضمنی الیکشن میں ماحول خراب کیا گیا جبکہ الیکشن کمیشن نے پورے حلقے میں انتخابات سے متعلق مسلم لیگ ن کی درخواست منظور کر لی ہے۔
جمعرات کو الیکشن کمیشن میں حلقہ این اے 75ڈسکہ میں دھاندلی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے سماعت کی جبکہ سماعت میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار نوشین افتخار کی نمائندگی کرنے والے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جن پولنگ اسٹیشن کے پریزایڈنگ افسران غائب ہوئے وہاں پولنگ کی شرح 86 فیصد تک رہی۔
سلمان اکرم راجا کا کہناتھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات ہیں کہ معاملے کی تہہ تک تحقیقات کریں کہ ڈی ایس پی ذوالفقار ورک کی دوسری مرتبہ تعیناتی کا کون ذمہ دار ہے جبکہ پی ٹی آئی امیدوار کے سب سے بڑے سپورٹر نے کہا تھا کہ یہ ڈنڈے اور سوٹے کا الیکشن ہے اور جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ گاں میں ڈنڈے سوٹے تو ویسے بھی چل جاتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے رکن سندھ کا کہناتھا کہ ویڈیو سے لگتا ہے ڈنڈے سوٹے کا لفظ محاورے کے طور پر بولا گیا تھا جبکہ وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ غیر متنازع تمام 337 پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کو روکا گیا۔
وکیل نے کہا کہ نوشین افتخار نے ریٹرننگ افسر (آر او) کو جو درخواست دی اسے پڑھا جائے جبکہ نوشین نے 23پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دی ہے تاہم آر او نے بھی اپنی رپورٹ میں بیس پولنگ اسٹیشنز کے نتائج تاخیر سے پہنچنے اور صرف 14 پر ری پولنگ کی تجویز دی۔
سماعت میں سلمان اکرم راجا نے متنازع 20 پولنگ اسٹیشنز کے ووٹوں کا فرانزک آڈٹ کرانے کی استدعا کی جبکہ بیرسٹر علی ظفر کا کہناتھا کہ ہر الیکشن تنازع کا سیاسی اور میڈیا پہلو ہوتا ہے ، جرمن فلاسفر نے کہا تھا شکار ، جنگ اور الیکشن ہارنے کے بعد جھوٹ بولا جاتا ہے۔
سلمان اکرم راجا کا مزید کہنا تھا کہ این اے 75 کے 360 میں سے 337 پولنگ اسٹیشنز کا کوئی تنازع نہیں، ریٹرننگ افسر نے قیاس آرائیوں کی بنیاد پر دوبارہ پولنگ کی سفارش کی ، یہ کہنا درست نہیں کہ نتیجہ تاخیر سے آنے کا مطلب رزلٹ تبدیل ہونا ہے، جو پر رکن سندھ کا کہناتھا کہ جس انداز میں تاخیر ہوئی اس سے نتائج میں تبدیلی کا گمان ہو سکتا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہناتھا کہ پریزائڈنگ افسران کے آر او آفس پہنچنے کا کوئی وقت مقرر نہیں، صبح سے شام تک موبائل کی بیٹریاں ختم ہوجاتی ہیں جس پر رکنِ خیبرپختونخوا ارشاد قیصر نے کہا کہ کیا ڈرائیورز سمیت سب کی بیٹریاں ختم ہوگئی تھیں؟
وکیل پی ٹی آئی کا کہناتھا کہ انتخابی عملے کا دفاع نہیں کروں گا ، جن کے نتائج میں تبدیلی نہیں ہوئی کیا ان کے موبائل آن تھے؟ پریزائڈنگ افسران کادیر سے آنا کوئی غیر قانونی چیز نہیں کہ اس پر دوبارہ الیکشن کرایا جائے۔
چیف الیکشن کمشنر نے سوال کیا کہ ووٹرز کے لیے خوف و ہراس کی فضا ہو تو کیا ہوگا؟ اگر ماحول ایسا بنا دیا جائے کہ ووٹر ووٹ نہ ڈال سکے تو پھر کیا ہونا چاہیے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بہتر تھا ریٹرننگ افسر نتائج کا اعلان کرتے، نتائج کا اعلان ہونے کے بعد ٹربیونل سے رجوع کیا جا سکتا تھا اور کسی پریذائڈنگ افسر نے اغوا ہونے یا نتیجہ تبدیل کرنے کا نہیں کہا جبکہ انکوائری کرنا الیکشن کمیشن نہیں ٹربیونل کا کام ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کا کہناتھا کہ علی اسجد کے پارٹی سربراہ نے 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا بیان دیا، جس پر رکن سندھ نے کہا کہ کیا 10پریزائڈنگ افسران کے لاپتا ہونے کا مطلب قانون کی صریحا خلاف ورزی نہیں؟
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اس کے لیے کمیشن کو پہلے قرار دینا ہوگا کہ پریزائڈنگ افسران نے جھوٹ بولاجبکہ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سال 2018کے عام انتخابات میں فارم 45کا مسئلہ سامنے آیا تھا لیکن الیکشن کمیشن کو فارم 45 نہ ملنے کی شکایت نہیں آئی۔
سماعت میں پی ٹی آئی امیدوار علی اسجد ملہی کا کہناتھا کہ مریم نواز نے رات 12:30بجے ہی فتح کا اعلان کر دیا تھا اور کئی بار الیکشن ہارنے پر پولنگ ایجنٹس فارم 45کی کاپی نہیں لیتے۔
دوسری جانب دوران سماعت ممبر پنجاب الطاف ابراہیم قریشی نے علی اسجد ملہی کو ڈانٹ دیا جبکہ ممبر پنجاب کا کہناتھا کہ آپ نے جرسی اپنے گلے میں لٹکائی ہوئی ہے جو مناسب انداز نہیں، باہر جا کر جرسی اتاریں اور آکر بولیں۔
علی اسجد ملہی نے الیکشن کمیشن سے معذرت کر کے باہر جاکر جرسی اتاری دی جبکہ الیکشن کمیشن نے 19فروری کو ڈسکہ کے این اے75میں ہونے والے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے این اے 75 میں 18مارچ کو پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم دیدیا ہے۔
الیکشن کمیشن کا کہناتھا کہ حلقے میں الیکشن کے لیے سازگار ماحول نہیں تھا جس کے بعد الیکشن کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن میں مذکورہ حلقے میں ضمنی انتخاب کے دوران مبینہ دھاندلی کے خلاف دائر کردہ درخواست میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کا مطالبہ کیا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے ان 20پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دی تھی جن کے نتائج روکے گئے تھے۔