ایک نسل ہی رخصت ہوتی چلی جارہی ہے

630

مشاہد اللہ خان، ایک انسان اور سیاسی کارکن کے طور پر بے شمار خوبیوں کے باعث وہ عزت اور شہرت پاکر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں کہ اب وہ خود بھی سکون سے ہیں اور بہت سارے لوگوں کی بے سکونی بھی ختم کرگئے ہیں، راولپنڈی میں پیدا ہوئے، غریب خاندان سے تعلق تھا، ان کی والدہ نے اپنے بچوں کو بہت محنت سے پالا تھا، طالب علم تھے تو اسلامی جمعیت طلبہ میں آئے، مزدور بنے تو پیاسی میں چلے گئے، جماعت اسلامی کے امیر سید مودودی کے شیدائی تھے مگر سیاسی میدان جماعت اسلامی میں کچھ عرصہ گزار کر1990 لے آس پاس مسلم لیگ میں چلے گئے، وہیں سے مسلم لیگ(ن) کا حصہ بنے، چونکہ تربیت اسلامی جمعیت طلبہ نے کی تھی لہٰذا نڈر، دبنگ اتنے کہ صرف اللہ سے ڈرتے تھے، مشاہد اللہ خان نے جماعت اسلامی کی آغوشِ تربیت میں آنکھ کھولی، والدین جماعت اسلامی سے وابستہ تھے، وابستگی بھی ایسی کہ ان کا گھر راولپنڈی میں جماعت کا دوسرا دفتر بن گیا سب بھائی دورِ طالب علمی ہی میں طلبہ سیاست میں متحرک تھے، یہ خود اسلامی جمعیت طلبہ کا حوصلہ تھے اور ان کا گھر جمعیت کے نوجوانوں کے لیے پناہ گاہ، اس تربیت اور پس منظر کے ساتھ عملی سیاست میں قدم رکھا، بس اتفاق کہیے کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے مسلم لیگ کو بھی کم رجالِ کار فراہم نہیں کیے، مشکل کے دنوں میں نون لیگ کا بھرم قائم رکھنے میں ان کا کردار مرکزی ہے۔ جاوید ہاشمی، احسن اقبال، صدیق الفاروق اور مشاہداللہ، پرویز رشید بھی طلبہ سیاست سے آئے مگر وہ دائیں نہیں بلکہ بائیں دروازے سے آئے، مشاہد اللہ خان نے طلبہ سیاست کی، مزدور تنظیموں میں رہے اور عوامی سیاست بھی کی کبھی اپنا وقار مجروح نہیں ہو نے دیا، مسلم لیگ(ن) میں چند ہی تو لوگ تھے جنہوں نے باغیانہ مزاج پایا، جاوید ہاشمی بھی انہی میں شامل کیے جاسکتے ہیں اور اتفاق یہ کہ مشاہد اللہ اور جاوید ہاشمی دونوں گہرے دوست بھی تھے، دونوں میں فرق یہ رہا کہ مشاہد اللہ خان نے نواز شریف کو نہیں چھوڑا اور جاوید ہاشمی باغیانہ مزاج کے باعث متعدد بار گھونسلے سے اڑے اور پھر واپس آتے رہے، نواز شریف ابھی حال ہی میں جب اقتدار سے ہٹائے گئے تو اعلان کیا ہے کہ اب وہ نظریاتی ہو گئے ہیں، نظریاتی ہونا بہت اچھی بات ہے مگر با اصول ہونا اس سے بھی اچھی بات ہے۔
مشاہد اللہ خان کی سیاست میں صرف مسلم لیگ میں شمولیت کا ’’داغ‘‘ ہے سگریٹ نوشی کے علاوہ ان میں کوئی ’’عیب‘‘ نہیں تھا، دو بار نواز شریف کی کابینہ میں رہے، سینیٹر بنے، حکومت میں رہے اور اپوزیشن میں رہے مگر نیب زدہ نہیں ہوئے، کم و بیش گیارہ بارہ برس قبل انہیں کینسر کی شکایت ہوئی، علاج بھی ہوگیا اور صحت یابی بھی ہوئی مگر یہی مرض دوبارہ واپس آگیا، بس اللہ کی مرضی، ہر ذی روح کو موت کا مزاہ چکھنا ہے۔ مشاہد اللہ خان کی وفات پر تعزیت کے لیے نواز رضا کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پہنچا تو ان کے بھائی مجاہد اللہ خان سے تعزیت کی، مرحوم کی صاحب زادی سابق ایم این اے ردا خان اور مرحوم کے صاحب زادے افنان اللہ خان سے تعزیت کی، سچی بات یہ ہے کہ مجاہد اللہ خان سے ملتے ہوئے مجھے قبلہ سعود ساحر بہت یاد آئے، وہ دونوں جنت میں اکٹھے ہوں گے، پارلیمنٹ ہائوس کے کیفے ٹیریا میں، یا کبھی کبھی راجا محمد ظفر الحق کے چیمبر میں ان سے لمبی لمبی نشستیں ہوتیں، انہیں تکلیف بھی دی مگر ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ دیکھی، ایوان میں وہ بولتے تو لفظ، جملے اور مربوط اظہار خیال ایسا کہ کوئی ان کا ثانی نہیں تھا، پوری پوری نظمیں اور غزلیں ان کی تقریر کا حصہ ہوتیں، اب سینیٹ میں ان جیسا مقرر نہیں ملے گا، بے باکی سے گفتگو کرتے تھے مگر انداز اتنا لطیف اور ظریفانہ ہوتا کہ مخالف پارٹی کے ارکان بھی اس کا لطف ضرور لیتے، جمہوریت، انسانی حقوق اور عوامی مسائل پر اب ان جیسی آواز نہیں ملے گی۔ مشاہد اللہ خان کا ہنستا مسکراتا چہرہ یاد رہے گا ان کی سیاسی زندگی میرے سامنے ہے، محنت، رزق حلال، بطور یونین لیڈر کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کی جنگ اور سب سے بڑھ کر اپنے سیاسی نظریات سے تاحیات مکمل وابستگی ان کا کریڈٹ ہے۔
یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ مسلم لیگ(ن) میں مزاحمتی گروہ بھی وہی ہے جس کی تربیت طلبہ یونین کے وقت ہوئی اکثریت ایسی ہے کہ جس نے منہ میں گھنگھنیاں ڈالی ہوئی ہیں، ان کے انتقال کے بعد سینیٹ کا سیشن ہوا، جس میں مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا گیا یہ منظر بہت ہی اداس تھا سینیٹ میں مشاہداللہ خان نظر نہیں آئے نہ ان جیسا کلام سننے کو ملا ایسی قدرتِ کلام‘ ایسا دبنگ لہجہ‘ قسامِ ازل نے کسی دوسرے کو ارزاں نہیں کیا، پارلیمان اسی سیاسی کلچر میں ڈھل گئی‘ ملکی سیاست صبح شام ’چور چور‘ کی تکرار… نے متوازن سے متوازن آدمی کو زچ اور اسے ردِ عمل پہ مجبور کردیا ہے۔ مشاہداللہ خان کی سنجیدگی اور تربیت پر بھی کبھی کبھی ردِ عمل کا غلبہ ہو جاتا اور پھر کوئی ان کا سامنا نہ کر سکتا، شعر تو
خیر دور کی بات‘ نثر میں بھی حریف بے بسی کی تصویر بنے رہتے، وہ وزیر تھے توپارٹی قیادت کی طرف سے انہیں وزارت چھوڑنے کے لیے کہا گیا تو بغیر کسی تردد کے وزارت چھوڑ دی۔ اَناکا مسئلہ نہ بنایا تاہم ان کے نقطہ نظر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ان کے لہجے میں کوئی ضعف آیا نہ ان کی آوازہی مدہم ہوئی، اُن کی شخصیت کا نظری ڈھانچہ بھی وہی رہا جو جماعت اسلامی میں بنا، نظریاتی سیاست نے ہماری سیاسی جماعتوں کو جو افرادِکار دیے، وہ کردار اور شعور کے اعتبار سے دوسروں سے بہتر ثابت ہوئے۔ انہوں نے سیاست کے وقار کو مجروح نہیں ہونے دیا یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ غیر نظریاتی لوگوں کے مقابلے میں زیادہ استقامت اور کردار کا مظاہرہ کیا۔ نظریاتی سیاست کے خاتمے کے بعد سیاسی جماعتیں تربیت کا کوئی متبادل نظام فراہم نہ کر سکیں۔ سیاست میں نمایاں ہونے والے نئے کرداروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اس غفلت کی کتنی بھاری قیمت قوم کو ادا کرنا پڑی ان نوواردانِ سیاست نے ملک کو شرمندگی کے سوا کچھ نہیں دیا، مشاہد اللہ خان کی طرح کے پختہ کار لوگ اب رخصت ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ لینے والوں میں وہ واصاف نہیں یا انہیں وہ تربیت گاہیں میسر نہیں جہاں تعمیر ِ کردار ہوتی ہے جماعت اسلامی ایک بہتر تربیت گاہ ہے تاہم اسے اپنے منشور کو اپنے نظریاتی تشخص کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ماڈریٹ بنانا ہوگا، تاکہ مشاہد اللہ خان جیسے کارکن میسر رہیں مسلم لیگ میں وہ کیوں گئے؟ مشاہد اللہ تو اس سوال کا جواب دینے کے لیے اب دنیا میں موجود نہیں تاہم کوئی تو سوچے جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ لوگ کیوں ضائع ہوتے گئے۔