جاپان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے، جو آبادی کے بحران کا شکار ہیں۔ حکومتی سطح پر مختلف ترغیبات اور حوصلہ افزائیوں کے باوجود جاپانی والدین بچوں کی صورت میں ذمے داری بڑھانے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ نتیجتاً جاپان کا شمار اب معمر معاشروں میں ہونے لگا ہے۔ جاپان میں 60 سال کی عمر کے افراد کل آبادی کا 33 فیصد اور 65 سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد 26 فیصد ہے جب کہ شادی شدہ جوڑوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ بچوں کے جھنجھٹ سے دُور ہی رہا جائے۔
بات اگر صرف یہیں تک محدود رہتی تو شاید اشک شوئی کی جاسکتی تھی، لیکن ایک خوف ناک ترین اور نئے چیلنج نے جاپان کے معاشرتی نظام کی بنیادیں ہلادی ہیں، جس کا تعلق بچوں میں خودکشی کا رجحان ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ ترین قوم جو اپنے جدید ٹیکنالوجی سے مزین طرز زندگی، بہترین معیشت اور اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کی حامل سمجھیں جاتی ہے، اس وقت ایک ایسے بحرانی دور سے گزر رہی ہے جس کے حل کا اس کی نسل کی بقا سے گہرا تعلق ہے۔ جاپان کی نیشنل پولیس ایجنسی کی سالانہ رپورٹ نے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، ان کے مطابق عمومی خود کشیوں کا بلند ترین رجحان 2003 ء تک نظر آتا ہے ۔ اس سال کل 34427 خود کشیاں ریکارڈ پر آئیں۔ جس کے بعد اس رجحان میں 2010ء تک واضح کمی آتی چلی گئی لیکن حیرت انگیز طور پر طالبعلموں میں یہ رجحان بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ 2006ء کے اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ بچوں میں سے ایک اعشاریہ دو فیصد بچوں نے خود کشی کی تھی لیکن اگر ہم 2018ء کا جائزہ لیں تو یہ تعداد دگنی سے زیادہ یعنی دو عشاریہ پانچ فیصد ہوگئی جو یقینا جاپانی معاشرے کے لیے ایک بڑا المیہ ہے۔
اس رجحان کی وجہ جاننے کی غرض سے جب ایک شماریاتی جائزہ لیا گیا تو مختلف وجوہات اور ان سے جڑے المیوں کے اعداد و شمار بہت سی کہی اور ان کہی کہانیوں کو بے نقاب کرتے نظر آتے ہیں ۔ ہر چند کہ بچوں کی 60 فیصدخودکشیوں کی وجہ نامعلوم ہے تاہم دیگر وجوہات سماجی نوعیت کی ہیں، جن میں سب سے بڑی وجہ خاندان سے اختلاف رائے کا ہونا ہے اور یہی بچوں کی خودکشی کے بلند ترین تناسب 12.3 فیصد کی وجہ نظر آتی ہے۔ بچوں میں خودکشی کے رجحان کی دوسری بڑی وجہ والدین کی سرزنش یا تنبیہی رویہ بتایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں 9 فیصد بچوں نے یہ قدم اٹھایا ۔ اس حوالے سے جاپان کے ایک غیر منفعت بخش ادارے نپون ڈاٹ کام کے ذریعے 2018ء میں ایک سروے منعقد کروایا گیا جس کی محرک وزارت برائے تعلیم، کھیل،سائنس وٹیکنالوجی تھی۔ اس وزارت کو MEXT کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ میکسٹ کی سروے رپورٹ کا عنوان Problematic behaviour and non attendance of school children ہے۔ اس رپورٹ میں خودکشی کی وجوہات کا عمیق جائزہ لیا گیا تھا۔ سروے کے نتائج کے مطابق 2018ء میں جونیئر ہائی اسکول اور ہائی اسکولوں میں کل 332 بچوں نے مختلف وجوہات کی بنا پرخودکشی کی تھی ۔ اس افسوسناک واقعے میں متاثرہ بچوں کی تعداد کا بریک اپ کچھ یوں ہے۔
خاندان کے ساتھ اختلاف رائے کے نتیجے میں 41 بچے (12.3 فیصد) والدین کی سرزنش کے نتیجے میں 30 بچے (9فیصد) تعلیمی ناکامی سے دل برداشتہ 17 بچے (5.1 فیصد) مستقبل سے ناامید 28 بچے 8.4 فیصد) اساتذہ سے ساتھ تنازع کی بنا پر 5 بچے (1.5 فیصد) دوستوں سے جھگڑے کے باعث 16 بچے (4.8 فیصد) غنڈی گردہ سے تنگ 9 بچے (2.7 فیصد) بیماری کی وجہ سے مایوس 9 بچے (2.7 فیصد) مخالف جنس سے تنازعات کے باعث 22 بچے (6.6 فیصد) ذہنی بیمار 24 بچے (7.2 فیصد) دیگر 18 بچے جبکہ نامعلوم وجوہات کے باعث194 بچوں کی خودکشی کے واقعات سامنے آئے جس کا تناسب 58فیصد سے زیادہ ہے۔
ہوسکتا ہے اس رپورٹ اور اس کے نتیجے میں کئی ایسے امور کا جائزہ لیا جائے جن پر روایتی جاپانی معاشرے کی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی غور نہیں کیا گیا کیوں کہ روایتی طور پر جاپان میں بھی خود کشی ایک عام رویہ نہیں سمجھا جاتا ہے لیکن خود کشیوں کی یہ نیا رجحان بہرحال ایک ایسا معاملہ ہے جس کی مثال جاپان کے ماضی میں نظر نہیں آتی۔
اس معاملے کا ایک سماجی پہلو بھی ہے، جس پر پہلے بھی دبے انداز میں گفتگو ہوتی رہی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ معاملہ زبان زد عام ہونے جارہا ہے۔ اس معاملے کا تعلق ایک جانب مغرب سے اخذ کردہ سرمایہ دارانہ نظام ہے، جس کے تحت جاپانی نظام اور اس کے تحت پیدا کردہ معاشرتی عورتوں اور مردوں سے یکساں ذمے داریوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ سرمایہ داریت خواتین کو یکساں حقوق کے نام پر سخت محنت اور یکساں ذمے داریاں نبھانے کے باوجود کم مشاہرہ ادا کرتا ہے۔ ایسا صرف جاپان میں نہیں ہوتا بلکہ جہاں جہاں آپ کو سرمایہ داریت کی ’’برکات و فیوض‘‘ نظر آتے ہیں، تقریباً وہ سارے ہی معاشرے اس دردناک صورتحال کا شکار نظر آرہے ہیں۔ اتنی سخت محنت کے بعد اور خود انحصاری کی فریب خوردہ عورت کوآزادی کی خواہش اس وقت تک شادی سے دور رکھتی ہے، جب تک آئینہ اسے بہت سا وقت گزر جانے کی نوید نہیں سناتا۔ 35 سے 40 سال کی عمر میں شادی کرنے والی یہ خواتین خاندان کی ضرورت محسوس کرنے کے باوجود شادی کے بعد بھی زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ بچوں کی پیدایش کے بعد انہیں ڈے کیئر سینٹر کے حوالے کرنے کی وجہ سے رشتوں کی مٹھاس معاش کی تلخیوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ بچے والدین کے لمس سے محروم ایک غیر محسوس لیکن یقینی بے چینی کی زد میں آ کر رشتوں کی حلاوت سے محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ شدید دباؤ اور ذہنی مسائل کی صورت میں ظاہر ہونے لگتا ہے، جس کے نتائج اب سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
جاپان روایتی طور پر بچوں کے لیے غیر معمولی توجہ اور محبت کے ساتھ تربیتی پہلو کے حوالے سے مشہور ہے۔ جاپان میں تاریخی تہوار جیسے حنا ماتسوری (گڑیوں کا تہوار جسے بچیوں سے موسوم کیا جاتا ہے) اور تانگو نو سیکو یا کودومو نو ہی (لڑکوں کا دن) جیسے تہوار آج بھی جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں لیکن اب ایسا لگ رہا ہے گویا بچوں کی جانب ان کی روایتی توجہ کو رفتہ رفتہ سرمایہ داریت کا عفریت نگلتا جارہا ہے ۔ یوشی ہیدے سوگا ایک غیر روایتی لیکن دور اندیش سوچ کے حامل رہنما کی شہرت رکھتے ہیں اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اس سلسلے میں وہ کوئی ایسا بل پیش کریں جس سے اس رجحان کے خاتمے میں مدد مل سکے۔ یہ قانون ممکنہ طور پر امریکا ،کینیڈا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بچوں سے متعلق مختلف قوانین کا جائزہ لے کر بھی پیش کیا جا سکتا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ اس کے ساتھ خاندانی نظام کی شیرازہ بندی کے لیے بھی کوئی قانون سازی ہو مگر اس کے لیے جاپان کو ماضی سے اپنے رابطوں کو ایک بار پھر استوار کرنا ہوگا جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بہر حال اس مسئلے کا حل ناگزیر ہے کیوں کہ اس سے جاپان کی آیندہ نسل کی بقا اور جاپانی قوم کا مستقبل وابستہ ہے۔