ہار جیت کھیل کا حصہ ہی سہی لیکن دلوں میں ہار جانے سے بڑے صدمے والی کوئی اور بات نہیں ہو سکتی۔ ایک ہار وہ ہوتی ہے جہاں سے کسی وقت بھی جیت جانے کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکلتی دکھائی دے رہی ہوتی ہے اور ایک ہار وہ ہوتی ہے جہاں دوبارہ جیت جانے کی ساری امیدیں دم توڑ دیا کرتی ہیں۔ جمہوریت میں جو کچھ بھی عروج و زوال حاصل ہوتا ہے وہ عوام کے دل جیتنے میں مضمر ہوتا ہے۔ جب عوام کے دل آپ کا اعتماد کھو چکے ہوں تو پھر اس بات کی کوئی امید رکھنا دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے حقیقت کا اس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔
پاکستان میں جتنے بھی پرانے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ہیں بے شک ان سب کے چہرے اس بری طرح مسخ ہو چکے ہیں یا کر دیے گئے ہیں کہ ان پر کسی بھی قسم کی پلاسٹک سر جری کارگر نہیں ہو سکتی۔ لیکن اس کا کیا جائے کہ جو یہ دعوے لیکر آئے تھے اور جن کو لانے والوں نے قوم کو یہ یقین دلایا تھا اب ہم ماضی کی طرح جن لوگوں کو قوم کے سامنے لا رہے ہیں وہ نورانی اور فرشتوں کے ہمسر ہیں، انہوں نے اپنی اپنی تصاویر کا دوسرا رخ جب عوام کے سامنے دکھایا تب قوم کے علم میں یہ بات آئی کہ تصویر کے دوسرے رخ کا اصل مطلب کیا ہوتا ہے۔ پیش کیے جانے والے نورانی چہرے جب شیطانی بن کر قوم کے سامنے آئے تو دہشت اور خوف کے مارے عوام کی تو چیخیں نکلی ہی نکلیں، جو ان کی پشت پناہی کر رہے تھے، تمام تر مضبوط اعصاب کے مالک ہونے کے باوجود لرز کے رہ گئے۔
2018 میں بھی ایک الیکشن ہوا تھا جس میں عوام کا ایک جوش و خروش سامنے آیا تھا اور 2021 میں ہونے والے 3 ضمنی الیکشن کے نتائج بھی سامنے ہیں۔ الیکشن ہار جانا ایک الگ بات سہی لیکن ہار جانے کا یہ مطلب کبھی نہیں ہوتا کہ عوامی نفرتیں تو بیلٹ بکسوں میں سے برآمد ہوں لیکن ووٹ نکل کر نہ دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ میں، بشمول کراچی، پی پی پی ایک مقبول جماعت رہی ہے۔ پورے سندھ میں شہری علاقے بے شک پی پی پی کے ساتھ کبھی اندرون سندھ کے سے انداز میں نہیں رہے جن میں حیدرآباد اور کراچی بہت زیادہ نمایاں رہے ہیں۔ سندھ کے شہری علاقوں میں اگر پی پی پی کا غرور خاک میں ملایا ہے تو اس میں یا تو جماعت اسلامی کا نام آتا رہا ہے یا پھر سہی معنوں میں ایم کیو ایم (جب تک دھڑے بندی کا شکار نہیں کر دی گئی تھی) پی پی پی کا جلوس نکالتی رہی۔ عوام نے 2018 کے الیکشن میں سب کو رد کرتے ہوئے اس مرتبہ اندورن سندھ اور کراچی میں پی ٹی آئی کا ساتھ دیتے ہوئے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں واضح کامیابیاں دلوائی تھیں۔ بے شک یہ اس انداز کی کامیابیاں تو نہ تھیں جیسے ماضی میں ایم کیو ایم حاصل کرتی رہی تھی لیکن اگر وہ دیگر حلقوں سے ہاری بھی تھی تو ووٹوں کی اچھی خاصی تعداد حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی جس سے اس بات کے امکانات پیدا ہو چلے تھے کہ آئندہ آنے والے کسی بھی قسم کے الیکشن میں پی ٹی آئی عوام کی مزید حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن 2021 کے ضمنی الیکشن کے نتائج پی ٹی آئی کے کان کھڑے کر دینے کے لیے بہت کافی ہونے چاہئیں۔
ایک ایسی پارٹی جس کی حکومت صوبہ سندھ کے علاوہ ہر صوبے میں ہو، گلگت بلتستان میں الیکشن جیتی ہو اور مرکز میں نہایت طمطراق کے ساتھ حکومت پر براجمان ہو، جس کے ساتھ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھنے میں آ رہا ہو کہ ملک کے تمام کے تمام حساس ادارے اس کا ہر ہر معاملے میں ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں، عوام سے کبھی چھ اور کبھی 9 ماہ کی مہلت مانگ رہے ہوں، تبدیلی کی ضمانت دے رہے ہوں، سر پر ٹوپی پہن کر سلوٹ مارتے نظر آ رہے ہوں، ہیڈ کواٹر میں ریڈ کارپٹ بچھا بچھا کر بچھے جا رہے ہوں یہاں تک کہ ذاتی رہائش گاہ کے دورے پر دورے لگا رہے ہوں، اس کی کار کردگی کا یہ عالم ہو کہ کراچی سمیت، سندھ سے ضمنی الیکشن میں ان کی ضمانتیں ضبط ہو رہی ہوں تو پھر اس پارٹی کے لیے ایسی ہار صورِ اسرافیل سے کسی صورت کم نہیں ہونی چاہیے۔
الیکشن میں یہ ہار صرف پی ٹی آئی کے لیے ہی صورِ اسرافیل نہیں بلکہ وہ ایم کیو ایم جس کو ’’اب‘‘ حکومت سمیت، پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اور حساس ادارے ایم کیو ایم تسلیم کرکے نہایت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اس کے لیے بھی جائے عبرت ہے کہ جب مختلف دباؤ اور لالچ آنکھوں کے قرنیوں میں سب ہرا ہی ہرا دکھانے لگتا ہے تو عوام کی بیدار آنکھیں سب کچھ صاف صاف دیکھنے لگتی ہیں۔ حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج کو سامنے رکھ کر، پی ٹی آئی ہو، ایم کیو ایم یا پاکستان کی ساری ایجنسیاں و ادارے، ان سب کے لیے مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا