کراچی (رپورٹ:محمد علی فاروق) نوام چومسکی کے علاوہ بھی لوگوں کی اکثریت امریکا کو بدمعاش ریا ست کہتی ہے‘ امریکا دنیا کو جینے کا سلیقہ سیکھانے کے بجائے زبردستی اپنی تہذیب سکھا نے کی کوشش کرتا ہے‘ 5 دہائیوں میں لاکھو ںافراد کا قتل عام کا مقصد اپنی حدود میں اضافہ اور ریاستوںکے مال، معدنیات، تیل کے خزانے پر قبضہ جمانا ہے‘ امریکا ہمیشہ اپنی فوجی طاقت کے زور پر بدمعاشوں کی طرح ہرجگہ جب چاہے دندنانے کے لیے تیار رہتا ہے‘امریکا اپنے سرمائے کے تحفظ کی خاطر انسانیت کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اپنے مذہبی تصور کو بین الاقوامی سطح پر نافذ کرنا چاہتا ہے‘وہ اپنی طاقت کا صحیح اور غلط استعمال کر کے مزید طاقت کے حصول کے لیے بھی کو شاں ہے‘ امریکا نے گزشتہ دہائیوں میں دنیا کے بیشتر ملکوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا‘ پاکستان امریکا کا ظلم سہتا رہا ہے‘ کیا ہم امریکا پر جنگی جرائم کے مقدمات بنا اور چلا سکتے ہیں؟ ۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل امیرالعظیم ، جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب سوری اور پروفیسر ڈاکٹر ہما بقائی نے جسارت سے خصوصی گفتگو میں کیا۔ امیرالعظیم نے کہا کہ امریکا کو صرف نوام چو مسکی ہی نہیں بے شمار لوگ بدمعاش ریا ست کہتے ہیں‘ نوام چومسکی چونکہ ایک دانشور، پروفیسر ہیں‘ ان کی دنیا میں ایک حیثیت بن گئی ہے‘ امریکا کی حالیہ تاریخ جو گزشتہ50برس سے جاری ہے اس دوران لاکھو ں افراد کا قتل عام کیا گیا ‘ یہ ان کی بدمعاشی کا واضح ثبوت ہے‘ امریکا جب وجود میں آیا تب بھی اس نے وہاں کی اصل قوم کی نسل کشی کی پھر اس کے بعد امریکا نے اپنی سرحدوں میں مسلسل اضافہ کیا ‘ دنیا کی واحد ریا ستہائے متحدہ امریکا ہے جو اپنی حدود میں تسلسل کے ساتھ اضافہ کرتی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کچھ عرصے سے سمندروں اور صحرائوںاور دیگر ممالک میں اپنی فوج دھڑلے سے اتار رہا ہے‘ امریکا لو گوںکو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے نہیں دیتا‘ ان کو جینے کا سلیقہ سکھانے کے بجا ئے زبردستی انہیںاپنی تہذیب سکھانے کی کوشش کرتا ہے‘ اس کے ہاتھ میں ایک ہتھوڑی ہے جو اس کی بات نہ مانے تو وہ اکثر قوموںکی مرمت کے لیے اس کو استعمال کرتا ہے، جس کا بنیادی مقصد ان ریاستوںکے فوائد، مال سمیٹنا، معدنیات اور تیل سے بھرے خزانوں پر قبضہ جمانا ہے‘ یہ وہ تمام اسباب ہیں جس کی وجہ سے امریکا ایک بہت بڑی فوج لے کر اس دنیا میں بدمعاشوں کی طرح جب چاہے دندنانے کے لیے تیار رہتا ہے۔ پروفیسرڈاکٹر عبدالوہاب نے کہا کہ نوام چومسکی کا یہ خیال ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ دراصل امریکا کا نام لے کرکیبنٹ کے ایجنڈے کو بین الاقوامی سطح پر لا گو کر رہی ہے‘ امریکا اپنے مذہبی تصور کو بین الاقوامی سطح پر نافذ کر نے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے جس کے ذریعے وہ سرمائے کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتا ہے ‘ دنیا کی معیشت اندرونی اور بیرونی سرمائے پر کھڑی ہے ‘ اندرونی سرمایہ یا جنرل سرمایہ کاری ریاست کے کنٹرول میں ہوتی ہے جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتی‘ امریکا ریاستی کردار کو سرمائے کی بڑھوتی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا بین الاقوامی سرمائے کو کنٹرول کر کے امریکی سرمایہ داروں کے فائدے کے لیے بین الاقوامی مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے‘ الغرض امریکی ریاست جارحیت کو عالمی سرمائے کے تحفظ کے لیے بنیاد عطا کر تی ہے‘ اس سلسلے میں امریکی ریاست نے امریکی سرمایہ داروں کے تحفظ کے لیے مختلف ممالک سے تعلقات خراب کیے ہوئے ہیں‘ امریکا کے سامنے کسی نظام کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘ وہ امریکی سرمائے کو ہی اہمیت دیتا ہے اور اس کے تحفظ کے لیے سرگرداں ہے‘ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی ریاست بین الاقوامی سرمائے کے مفادات کے تحفظ کے لیے پوری دنیا کے ظلم اور زیادتی کو برداشت کرتی اور اس کو مہمیز دیتی ہے کیونکہ عالمی سرمائے میں امریکی سرمایہ داروںکا حصہ بھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ امریکا خاص طور پر اپنی صنعتوںکا تحفظ چاہتا ہے‘ اس ہی سلسلے میں وہ سرمایہ داری نظام سے انحراف کرتا نظر آتا ہے‘ امریکی ریاست نے اپنی تہذیب کو استوار کرنے کے لیے مونر ڈاکٹرائن، چاپان میں نیوکلیئر بم گراکر، ویت نام میں تجارتی منڈیوں کے حصول اور 70 لاکھ انسانوں کو قتل کرنے جیسے اقدامات کیے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ لیبیا، عراق، شام، لبنان، افغانستان اور دیگر ممالک میں امریکا کی ظلم و زیادتی نظر آتی ہے جبکہ ان تمام جنگوںکا کنٹرول بھی امریکی سرمایہ داروںکے پاس ہے‘ ان وجوہات کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا ایک بدمعاش ریا ست ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ نوام چومسکی نے بڑی بہادری سے دنیا کے سامنے اپنا موقف رکھا ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جو بھی طاقت حاصل کرتا ہے وہ اپنی طاقت کو صحیح یا غلط طریقے سے استعمال کرتا ہے اور مزید طاقت کے حصول کے لیے بھی کوشاں رہتا ہے‘ امریکا نے حالیہ دور میں بہت سی جنگوںکا آغاز کیا‘ بہت سے ملکوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا‘ امریکا نے افغانستان، عراق، شام اور یمن پر اپنی جنگیں مسلط کی ان میں کسی حد تک پاکستان بھی شامل ہے جہاں امریکا نے جنگ لڑی ہے مگر پھر ہوا کیا‘ امریکی بدمعاشی کو کون روک سکا ‘ دنیا کے پاس اس وقت کونسی ایسی طاقت ہے جو امریکا کی جگہ لائی جا سکے‘ ہم تصور کرلیں کہ جس مقام پر امریکا ہے اس مقام پر چین کو لے آئیں تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ چین امریکا کی طرح طاقت حاصل کرنے کے بعد مزید طاقت کے حصول کے لیے ایسا کچھ نہیںکرے گا جو کچھ امریکا نے گزشتہ 2 دہائیوں میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تو بالواسطہ امریکا کا ظلم سہتا رہا ہے ‘ دنیا میں جو سیاست چل رہی ہے وہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف ہے ‘ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ہم امریکا کا کچھ نہیں بگا ڑ سکتے اور امریکا کو بھی اس بات کا علم ہے کہ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘ اگر امریکا میں اس وقت خلفشار ہے تو یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے‘ بین الاقوامی سطح پر تو امریکا آج بھی مضبوط نظر آرہا ہے‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا امریکا کے بغیر گزارہ کر سکتی ہے یا پھر کسی میں امریکا کو روکنے کی صلاحیت ہے اگر ان سوالات کا جواب مل جائے تو پھر ہم امریکا پر ہر قسم کے جنگی جرائم کے مقدمات بھی بنا اور چلا سکتے ہیں ۔