بے وقت کی راگنی

636

مجھے جنرل پرویز مشرف کا دور یاد ہے، ملک خوشحالی کی طرف چل رہا تھا کہ اپوزیشن نے اُن کو جانے پر مجبور کردیا۔ میں یہ مانتا ہوں کہ اُن سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ این آر او اُن کی ایجاد ہے اس کے ساتھ کما کر دینے والے اداروں کی نجکاری، خیر پھر جو حشر نشر آصف علی زرداری کے دور میں ہوا کرپشن بام عروج پر چلی گئی، ہر ادارے میں رشتے داروں، دوستوں اور جیالوں کو لگا کر سپرمین بن گئے، آج کی سندھ حکومت اُن کے فلسفے کو لے کر چل رہی ہے، نااہل افسران کی ظفر موج لگی ہوئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ افسران جن محکموں میں موجود ہیں اُن محکموں کی رولنگ تک نہیں جانتے بس دستخط لے لو اور نوٹ دے دو۔ سندھ حکومت کے پاس تو چیک اینڈ بیلنس کا نام تک نہیں ہے۔ دوسری طرف میاں اینڈ میاں کی اپنی ریاست ہے وہ پنجاب کے شیر ہیں، اُن کے دور میں بڑے بڑے کام ضرور ہوئے مگر اُن کے بدلے جو کمیشن غیر ملکوں کے بینکوں میں منتقل ہوا غیر ممالک میں اربوں، کھربوں کی جائدادیں، اس کام میں زرداری صاحب بھی کچھ کم نہیں تھے، خیر اُمید پر دنیا قائم ہے نیب اور عدلیہ کی کوشش تو نظر آرہی ہے کہ ان چوروں سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس وصول کی جائے۔
بعض دفعہ جب میں اپنے وزیراعظم کے بیان پڑھتا ہوں تو مجھے بے بسی نظر آتی ہے۔ پی ڈی ایم سازش کررہی ہے؟ تو سر آپ کیا کررہے ہیں؟ آپ سازش کو بے نقاب کیوں نہیں کرتے! ادارے تو آپ کے حکم کے محتاج ہیں، پھر فرماتے ہیں میرے بس میں ہوتا تو تمام کرپٹ سیاستدانوں کو 3مہینے کے اندر جیل میں ڈال دیتا۔ یہ سرکار آپ کی کون سی بے بسی ہے آپ حکم تو کریں ہمارے ملک کی جیلیں جو ویران پڑی ہیں اُن میں بھی بہار آجائے گی۔ اُس میں آپ کی پارٹی کے لوگ بھی شامل ہوں گے اگر ایمانداری سے جیلوں میں ڈالے جائیں۔ آپ فرماتے ہیں اشرافیہ کا نہیں عام آدمی کا وزیراعظم ہوں تو سرکار یہ بھی بتائیں جب سے آپ کو اقتدار ملا ہے آپ کتنی بار عام آدمی کے درمیان تشریف لے کر آئے۔ ہزارہ برادری کا مطالبہ یہی تھا کہ وزیراعظم تشریف لے کر آئیں تو میتوں کی تدفین کا عمل شروع کریں گے۔ پی ڈی ایم تو مرحلہ وار اپنے دیے ہوئے ایجنڈے پر کام کررہی ہے، ملک بھر میں جلسے جاری ہیں۔ اس وقت مولانا فضل الرحمن کی گڈی چڑھی ہوئی ہے، دوسری طرف نیب نے مولانا کو ایک سوال نامہ روانہ کردیا کہ کام آپ کوئی کرتے نہیں پھر اس قدر دولت آپ کے پاس کہاں سے آئی۔ ارے بھائی مولانا صاحب کوئی آج سے مدرسے نہیں چلارہے ہیں۔ آج کل جس سیاست دان کو دیکھو نیب پر تنقید کرتا نظر آتا ہے، جب کہ عالمی اقتصادی فورم نے نیب کی کوششوں کی تعریف کی ہے۔ دوسری طرف وہی بے وقت کی راگنی کہ وزیراعظم مستعفی ہوجائیں اگر وہ نہیں گئے تو پھر لانگ مارچ شروع کردیں گے۔ اے ابن آدم ماضی میں بھی تاریخ نے بے شمار لانگ مارچ دیکھے ہیں، عوام بھی پی ڈی ایم کے لیڈروں کو جانتے ہیں، آج ملک قرضوں کی مد میں جو بھاری سود ادا کررہا ہے یہ تحفہ کسی اور کا نہیں ملک کی 2 بڑی سیاسی جماعتوں کے دور حکومت کا ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں بیوروکریسی کی کرپشن بھی کچھ کم نہیں ہے، بقول محسن صاحب کے ہمارے ملک کی نااہل بیوروکریسی کا تو یہ حال ہے کہ کام کو کبھی نا نہیں کرتے اور کام بھی نہیں کرتے۔
چند نااہل وزیر اور مشیر عمران خان کی مقبولیت میں بڑی رکاوٹ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ہر دور حکومت میں نہ صرف مزے کرتے رہے بلکہ جہاں موقع ملا بہتی گنگا میں ہاتھ بھی دھو لیے۔ پی ڈی ایم میں بھی کوئی اور نہیں ماضی کے حکمران اور ماضی کے وزیر شامل ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ وہ سب باشعور لوگ ہیں مگر افسوس کہ وہ یہ نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ سال گزشتہ پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا معاشی، سماجی، اقتصادی، سیاسی اور جمہوری بحران کا شکار ہے، وہ وجہ تو بچہ بھی جانتا ہے کہ کورونا کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ بڑے بڑے طاقتور ممالک کے معاشی ڈھانچوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حکومت ریاست (NGO’s) اپنے وسائل میں رہتے ہوئے کچھ اچھا کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ اس موقع پر ہماری سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں؟ سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں وہ سیاسی نظام کی حقیقی وارث ہوتی ہیں۔ کورونا کے اس بحران سے حکومت تن تنہا نہیں نمٹ سکتی، یہ بات تو مجھ جیسا قلم کار بھی جانتا ہے، مالی سال 2019-20 میں ملک کا کاروبار بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا، اس سے پہلے کالم کو ختم کروں ایک کینسر زدہ نوجوان سر رضوان کی انسانیت سے اپیل لکھ دو یہ نوجوان اسکولوں میں تعلیم دے رہا تھا، اچانک پتا چلا کہ بلڈ کینسر ہے۔ NIBD میں علاج ہورہا ہے، خون تبدیل ہوا ہے، 4 لڑکیاں ہیں گھر کا واحد کفیل ہے، یوسف پلازہ کے دو کمرے کے فلیٹ میں رہائش پزیر ہے۔ اُس نے مالی امداد کی اپیل کی ہے۔ انسانیت کے ناتے سر رضوان کی مدد کریں۔