حملے میں ملوث وکلا کو مثالی سزا ملنی چاہئے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

129

اسلام آباد (آن لائن) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ہائی کورٹ حملہ کیس میں پولیس کی طرف سے بے گناہ وکلا کو ہراساں کیے جانے کے خلاف کیس میں سیکرٹری اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ہدایت کی کہ بار ایسوسی ایشن واقعے میں ملوث وکلا کی نشاندہی کے لیے جے آئی ٹی کی معاونت کرے۔گزشتہ روز سماعت کے موقع پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ بار ملزمان کی نشاندہی کرے تاکہ کسی بے قصور کو ہراساں نہ کیا جائے‘جنہوں نے 5 گھنٹے ججز کو یرغمال رکھا وہ اس انتہائی گھناؤنے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں‘ یہ واقعہ بالکل غلط ہوا ہے اس میں ملوث لوگوں کو مثالی سزا ملنی چاہیے‘چیف جسٹس آف پاکستان کا بھی فون آیا تھا لیکن میں نے کہا کہ ہائی کورٹ کو میدان جنگ نہیں بننے دوں گا‘میں اس کے لیے بھی تیار تھا کہ آئیں اور مجھے جان سے مار دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے‘ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا‘ انتظامیہ اور پولیس کی بنائی گئی جے آئی ٹی ہی کام کرے گی‘ ہمیں موقع ملا ہے‘ اللہ کی طرف سے کہ مثال بنائیں ‘سب قانون کو جوابدہ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ وہ پلاننگ کے ساتھ آئے تھے اور باہر میڈیا والوں کو مارا اور وڈیوز ڈیلیٹ کی ہیں۔دریں اثنا انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن نے ہائی کورٹ حملہ کیس میں عدم ثبوت پر مزید 2 وکلا شعیب شیخ اور ظفر وڑائچ کو رہا کرنے کا حکم دیا جبکہ صدر ینگ لائرزفورم شعیب گجر کو 7 روزہ جوڈیشل پر جیل بھیج دیا گیا۔علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ پر وکلا حملہ کیس کی تحقیقات کے لیے چیف کمشنر نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق جے آئی ٹی میں پولیس اور حساس اداروں کے نمائندے، ایس ایس پی انویسٹی گیشن، ایس ایس پی سی ٹی ڈی، ایس پی صدر، ایس ڈی پی او اور ایس ایچ او مارگلہ شامل ہوں گے۔