جدہ کی معروف ادبی تنظیم مجلس اقبال کے تحت آن لائن عالمی سیرت کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس کی صدارت تمغہ امتیاز یافتہ شاعر و ادیب خالد اقبال یاسر نے کی جب کہ مہمانان خصوصی میں معروف شاعرہ زیب النسا زیبی، محسن علوی اور علامہ حسن شاہ شامل تھے۔ تقریب میں جن مقالہ نگار حضرات نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر روشنی ڈالی، ان میں زیب النسا زیبی، مجلس اقبال کے چیئرمین عامر خورشید، علامہ حسن شاہ، طاہرہ رباب، فوزیہ عباس، نعیم جاوید، صحافی سید مسرت خلیل اور مجلس اقبال کے جنرل سیکرٹری سید شہاب الدین شامل تھے جب کہ شعرا میں خالد اقبال یاسر سابق چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان، زیب النسا زیبی، محسن علوی، مجلس اقبال کے صدر ڈاکٹر محمد سعید کریم بیبانی ، رشیدہ دستگیر، طاہرہ رباب، سید مسرت خلیل، رئیس اعظم حیدری، رشید شیخ، زمرد سیفی اور عامل عثمانی شامل تھے۔
تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد سعید کریم بیبانی نے انجام دیے۔ انہوں نے ہر شاعر اور مقالہ نگار کو دعوت دیتے ہوئے قدیم عربی اور اردو شعرا کے نعتیہ اشعار سنا کر سامعین کے دلوں کو گرمایا۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ مکہ مکرمہ سے عامل عثمانی نے عالمی اردو مرکز کے صدر اطہر نفیس عباسی کی نعت پڑھی۔ احمد زبیر نے بڑی خوش الحانی سے کلام اقبال پڑھا۔ ان کے بعد مجلس اقبال کے چیئرمین عامر خورشید رضوی نے تنظیم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی اور سیرت کانفرنس میں اپنا مقالہ بعنوان ’’اقبال اور عشق رسول صل اللہ علیہ وسلم‘‘ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مجلس اقبال عالمی اردو مرکز کی ذیلی تنظیم ہے، جس کا مقصد و محور علامہ اقبال کا فکروفن ہے۔ اس سلسلے میں کئی برس سے بڑے تواتر کے ساتھ مختلف موضوعات پر تقاریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے اقبال کی شاعری میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوؤں کو اجاگر کیا اور بتایا کہ شاعر مشرق کا کلام ایسے انقلاب انگیز افکار سے پُر ہے، جس کی مثال تلاش کرنا ممکن نہیں۔ ان کے فن کا محور تلاش کرنا ہو تو اسکا نقطہ مرکزی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے بعد جدہ سے زمرد سیفی نے اپنا نعتیہ کلام سنایا۔
پھر مسلسل مرے اشک بہتے رہے
دل کی حالت یہ تھی نعت کہتے ہوئے
دوریاں مٹ گئیں میں مدینے میں ہوں
ہو گئی حاضری نعت کہتے ہوئے
زمرد سیفی کے بعد اسلام آباد سے فوزیہ عباس نے اپنا مقالہ بعنوان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بطور طبیب اعظم پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے کفر کے اندھیروں میں ڈوبی دنیا ایمان سے منور ہو گئی۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکمل ضابطہ حیات اور جامع دستور لے کر آئے جو دین فطرت کہلایا۔ انہوں نے طبی حوالوں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر روشنی ڈالی۔
دمام سے تعلق رکھنے والے عالم دین نعیم جاوید کے مقالے کا عنوان تھا ’’دشمنان اسلام کی اولاد کے اسلامی کارنامے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخالفین سے بھی نرمی برتتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مواخات کی بنیاد رکھی۔ حلف الفضول اور دیگر معاہدے کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی وجہ سے دشمنان دین نے اسلام قبول کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کے قبائل کو متحد کیا۔ ابو لہب کی بیٹی درہ ایمان لائی اور اس کے بیٹے مدینہ منورہ میں حدیث کے بڑے عالم ٹھہرے۔ عقبہ بن نافع دشمنان اسلام کے گھرانے سے تھا۔
صدر کانفرنس ممتاز شاعر، محقق اور ادیب خالد اقبال یاسر نے اپنے صدارتی خطبے میں ایک اہم دینی مسئلے کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے حقوق پورے کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں لڑکیوں کے لیے وراثت کا جو حق مقرر کیا گیا ہے، اس سے دستبردار ہونے کی کوئی گنجاش نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی حوصلہ افزائی کی کہ غلاموں کو آزاد کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا چاہیے۔ انہیں وہی کھانا اور چھت دی جائے جو مالک خود استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی لکھی ہوئی نعت بھی سنائی:
کاش میں تیرے دور میں ہوتا
جالا بنتا، ثور میں ہوتا
خوف نہ آتا زور آور سے
زور ترا بے زور میں ہوتا
اپنی قسمت پہلے کھلتی
طیبہ گر لاہور میں ہوتا
جرمنی سے دینی اسکالر طاہرہ رباب نے اپنے خطاب میں کہا کہ مسلمان قرآن تو پڑھتے ہیں مگر اس کے مفہوم تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علم کا شہر تھے۔ اللہ تعالی جل شانہ نے انہیں بے پناہ علوم سے نوازا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ معراج حیران کن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے واپس بھی آ گئے اور سب کچھ جوں کا توں تھا۔ انہوں نے اپنا نعتیہ کلام بھی سنایا:
وہ ندا تھی ہاتف غیب کی
وہ صدائے کن فیکون تھی
وہ رباب برسیں وہ رحمتیں
جو حیات نو کا شگون تھیں
مہمان خصوصی معروف شاعرہ، ادیبہ، ناول نگار، افسانہ نگار زیب النسا زیبی نے بھی اپنے مختصر مقالے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بحضور سرور کونین نعتیہ نذرانہ عقیدت بھی پیش کیا۔
معرفت کا راستہ ہے وہ ہدایت کا چراغ
مرحبا صل علیٰ، صل علیٰ میرے حضور
ڈاکٹر محمد سعید کریم بیبانی نے اشعار سنائے کہ:
پیڑ نہیں پر سایہ چھائے یوں بھی ہو سکتا ہے
بادل ان کے سر پر آئے، یوں بھی ہو سکتا ہے
گنہ کے گٹھڑے اٹھاؤ، چلو مدینے کو
حرم کی جوت جگاؤ،چلو مدینے کو
شکاگو سے کہنہ مشق شاعر محمد رشید شیخ نے بڑی دلجمعی سے کانفرنس میں شرکت کی اور تمام وقت موجود رہے۔ انہوں نے نعتیہ اشعار پیش کیے:
تم مدح و ثنا کی بات کرو
اور نعت نئی سوغات کرو
گر حب نبی کا دعویٰ ہے
تو صل علی دن رات کرو
کلکتہ سے معروف شاعر رئیس حیدری نے بھی نعت شریف بحضور امام المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی۔
وہی راہبر ہے رسولوں کا
وہی انبیا کا امام ہے
میرے ہم نشیں اسے یاد رکھ
کہ یہ مصطفیٰ کا پیام ہے
اسے خوف روز جزا نہیں
جو مرے نبی کا غلام ہے
لاہور سے رشیدہ دستگیر نے پر نم آنکھوں سے نعت شریف پیش کی:
مقدر بدلتے ہیں در مصطفی پہ
چلو ہم بھی چلتے ہیں، در مصطفی پہ
چراغ نبوت ہے روشن جہاں پہ
بجھے دل بھی جلتے ہیں در مصطفی پہ
جدہ کے صحافی سید مسرت خلیل نے اپنے ماموں ابو الانشا کی لکھی نعت پیش کی اور اپنے مقالے میں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاقت انتقام رکھنے کے باوجود دشمنوں سے بھی عفو و درگزر سے کام لیا۔ اہل اسلام کے لیے قرآن کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و آثار سے زیادہ کوئی چیز محبوب یا قابل قدر نہیں ہو سکتی۔
تقریب کے مہمان معظم محسن علوی نے حمد و نعت کے علاوہ سیرت طیبہ کے موضوع پر اپنی منظوم کتاب سے بھی کچھ اشعار سنائے:
خلقت تمام تیرے لیے سجدہ ریز ہے
انساں، زمین، چاند ستارے جدا جدا
جن و ملک یہ انس یہ مخلوق سب تری
ہر ایک، ایک رب کو پکارے جدا جدا
تو جس کو چاہے راہ دکھائے نجات کی
ملتے ہیں آگہی کے اشارے جدا جدا
تقریب سے علامہ حسن شاہ صاحب نے بھی خطاب کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اقبال کے کئی اشعار کے علاوہ اردو، پنجابی اور انگریزی اشعار کی مدد سے بھی سیرت پاک کے بارے میں ضو فشانی کی۔ انہوں نے اپنے مخصوص دردآمیز انداز میں اس بڑھیا کی مثال بھی دی جو مکہ مکرمہ سے اس لیے ہجرت کر رہی تھی کہ کہیں وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ہو کر اسلام نہ قبول کر لے مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر اس قدر متاثر ہوئی کہ فوراً اسلام قبول کر لیا۔
مجلس اقبال کے سیکرٹری جنرل سید شہاب الدین نے آخر میں تمام شعرا کرام اور معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کی سیرت النبی کی تقاریب سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اجمعین نے ایک طویل جدوجہد، سخت مشقت اور بڑی جانفشانی سے مختصر سے عرصے میں ایک صالح معاشرہ قائم کرکے دکھا دیا تھا۔ اگر ہم بھی پیارے نبیؐ کی سیرت اور ان کے اسوہ حسنہ کو اپنا لیں، ان کی سنت پر عمل کریں تو جو صالح معاشرہ قرون اولیٰ میں قائم ہوا تھا، آج بھی اس کی ایک جھلک مل سکتی۔
سید شہاب الدین نے اپنی بات علامہ اقبال کے اس شعر پر ختم کی:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں