اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیس: 4وکلا کی ضمانتیں مسترد

128

اسلام آباد ( آن لائن )انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیس میں گرفتاری کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوائے گئے 4 وکلا کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دی۔ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیس میں گرفتار نوید ملک، شیخ شعیب اور نازیہ بی بی سمیت 4 وکلا کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔درخواست گزار کے وکیل سہیل اکبر چودھری نے دلائل دیے کہ عدالت کو دیکھنا ہوگا کہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات بنتی ہیں یا نہیں۔سرکاری وکیل میاں عامر سلطان نے چاروں وکلا کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عدالت کا وقار اولین ترجیح ہے، مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات کا اطلاق ہوتا ہے۔عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور کچھ دیر بعد ضمانت کی درخواستیں مسترد کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ اور توڑ پھوڑ کرنے والے 32 وکلاکے مقدمات پر 5 بینچ تشکیل دے دیے گئے۔رجسٹرار آفس سے جاری کازلسٹ کے مطابق وکلا کیخلاف توہین عدالت مقدمات کی سماعت5 مختلف بینچ کریں گے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ اور توڑ پھوڑ کرنے والے 32 وکلاکو شوکاز نوٹس جاری ہوچکے ہیں۔دوسری جانب اسلام آبادہائیکورٹ نے چیف جسٹس بلاک پر حملے کے بعد بے قصور وکلا کے گھروں پر پولیس چھاپوں کا سلسلہ شروع ہونے پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی اسلام آباد سے(آج)ہفتے تک جامع رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیگناہ وکلا کو ہراساں کرنیوالوں کیخلاف کارروائی چاہیے ،پتاکریں کون گیم کھیل رہا ہے،عدالت کسی کو کوئی گیم کھیلنے کی اجازت نہیں دے گی۔جمعہ کوچیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سینئر وکیل نذیر جواد کی درخواست پر سماعت کی تو درخواست گزار وکیل نے بتایا کہ وہ احتجاج یا حملے میں شامل نہیں تھے،اس کے باوجود پولیس نے ان کے آفس پر چھاپا مارا ، میں نے توواقعے کی مذمت کی اور عدالتوں میں بھی پیش ہو رہا ہوں۔دوران سماعت2 گھنٹے کے عدالتی نوٹس پر ڈپٹی کمشنر و ایس ایس پی اسلام آ باد عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملے پر انکوائری بٹھائیں اور پتا کریں کس نے ایسا کیا اور کیوں کیا، ملک میں رول آف لا نہیں ہوگا تو کچھ بھی نہیں ہوگا،5فیصد لوگ واقعے میں ملوث تھے جو سب کی بدنامی کا باعث بنے ہیں، جو بھی اصل ملزمان کو بچانا چاہتے ہیں، عدالت کو بتائیں۔