کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے

581

جس دن سے موجودہ حکومت آئی ہے کوئی دن ایسا نہیں جاتا جس میں ہر آنے والے دن کے لیے حکومت عوام کے اندر کوئی نئی آس امید پیدا نہ کرتی ہو۔ اس سے قبل جتنی بھی حکومتیں قائم ہوتی رہیں، آنے والے بجٹ تک عوام کے لیے کسی نئی خوش یا بد خبری کی ہوا تک نہیں لگنے دیتیں تھیں۔ جس وقت اسمبلی میں بجٹ تقریر ہوا کرتی تھی، ملک بھر کے عوام کان سے ریڈیو لگائے یا ٹی وی پر آنکھیں گاڑ کر بیٹھ جایا کرتے تھے کہ دیکھیں اس میں کتنی چیزوں کی قیمتیں بڑھتی ہیں اور کتنوں کی گر کر زمین کی جانب آتی ہیں۔ بجٹ کے بعد کسی کے نصیب میں اچھی خبریں آتیں تو کچھ کے دل دیا سا بجھ جایا کرتے۔ پھر ایسا ہونے لگا کہ سال میں ایک بجٹ تو آتا ہی تھا لیکن سال مکمل ہونے سے قبل دو تین منی بجٹ بھی آنے لگے۔ جب حکمرانوں کی نیتیں نیک سے بد میں بدل جایا کرتی ہیں تو پھر ان کا ایک ہی مشن رہ جاتا ہے اور وہ عوام کو جھوٹی امیدیں دلانا یا دایاں دکھا کر بایاں مارنا۔ بلا مبالغہ موجودہ حکومت دایاں دکھا کر بایاں مارنے والوں کے سب سے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب یہ ہر شے کی قیمت میں کمی یا مہنگائی پر قابو پانے کے سلسلے میں عوام کو دایاں نہ دکھاتی ہو اور پھر نہایت زوردار طریقے سے بایاں نہ جڑ دیتی ہو۔ جس دن بھی وزیر اعظم اور ان کے حواریوں کی جانب سے یہ اعلان سامنے آتا ہے کہ حکومت نے مہنگائی بڑھ جانے کا نوٹس لے لیا ہے ٹھیک اگلے دن کسی نہ کسی مد میں اشیائے صرف و ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس جاری ہو جاتا ہے جس میں کسی بھی نظم کے ’’ٹیپ کے مصرع‘‘ کی طرح یہ سطر بھی دہرائی جاتی ہے کہ ایسا سب کچھ ہم پچھلی حکومت کی غلط حکمت عملیوں اور پالیسیوں کی وجہ سے کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
ٹیپ کا شعر یا مصرع ہوتا کیا ہے؟، ادبی ذوق رکھنے والے اس بات سے خوب واقف ہیں کہ کچھ نظمیں ایسی ہوتی ہیں جس میں دو، تین، چار یا پانچ مصرعوں کے بعد ایک مصرع یا شعر بار بار دہرایا جاتا ہے، جیسے نظیر اکبر آبادی کی نظم ’’برسات کی بہاریں‘‘ میں ’’کیا کیا مچی ہیں یاروں برسات کی بہاریں‘‘، احمد ندیم قاسمی کی نظم ’’کھیل‘‘ کا یہ مصرع ’’مجھ سے تو یہ آڑا سیدھا کھیل نہ کھیلا جائے‘‘ یا پھر جوش ملیح آبادی کی نظم ’’پیٹ بڑا بد کار ہے بابا‘‘ کا یہ مصرع کہ ’’پیٹ بڑا بد کار ہے بابا پیٹ بڑا بد کار‘‘۔ ٹھیک اسی طرح ’’میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا، میں سب کو الٹا لٹکا دوںگا، یہ سب گزشتہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور میں این آر او نہیں دوںگا، موجودہ حکومت کی بیشمار نظموں کے وہ ’’ٹیپ‘‘ کے مصرعے ہیں جن کو وہ بار بار دہرا کر بھوک سے بلکتے عوام کو آس و امید دلانے کے لیے استعمال کرنے سے کسی بھی موقع پر نہیں چوکتی اور عوام بھی اس بھوک کی گولی کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ جب جب بھی ٹیپ کا یہ مصرع یا شعر سنایا جاتا ہے ان کو اس سے ایسی تسکین نصیب ہوتی ہے کہ خالی پیٹ ہونے کے باوجود بھی گہری نیند آ جاتی۔
جس دن یہ اعلان کیا گیا کہ کہ ہم نے مہنگائی پر کافی حد تک قابو پالیا ہے، ٹھیک اگلے دن پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی سمری پر وزیر اعظم پاکستان نے دستخط اس ٹیپ کے مصرع کے ساتھ کر دیے کہ ’’ایسا گزشتہ حکومت کے پاور کے معاہدوں کی وجہ سے کیا جا رہا ہے‘‘ جس کی نتیجے میں پاکستان میں سستی بجلی کے بجائے مہنگی بجلی پیدا کی جانے لگی تھی۔
کئی دنوں کے مہنگائی پر قابو پانے کے اجلاس کے نتیجے میں یہ خبر سامنے آئی ہے کہ ’’ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر کے مکینوں پر نیا بجلی بم گرانے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں جس کے تحت کے الیکٹرک کے بجلی ٹیرف میں 3 روپے 24 پیسے فی یونٹ اضافے کا امکان ہے۔ کے الیکٹرک نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) سے بجلی کی قیمت میں گزشتہ 4 ماہ کے لیے اضافے کی درخواست کی ہے۔ اضافے کی صورت میں کراچی کے شہریوں پر 6 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔
کسی زمانے میں مہنگائی میں اضافہ یا کمی بجٹ سے وابستہ ہوا کرتی تھی، پھر یوں ہوا کہ درمیان درمیان میں ایک دو منی بجٹ آنا شروع ہوگئے، پھر ہر ماہ دو ماہ بعد ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوتا چلا گیا لیکن اب تو عالم یہ ہے کہ مارکیٹ سے کوئی شے اسی وقت لوٹ کر دوبارہ خریدنے جاؤ تو قیمت بدل چکی ہوتی ہے اور اگر دکاندار کو حوالہ دو کہ ابھی ابھی تو میں اس قیمت پر لیکر گیا تھا تو وہ کہتا ہے کہ صاحب یہ تو گھنٹہ پہلی کی بات تھی۔ مار کیٹ نہ ہوئی سارا بازار ہی اسٹاک ایکس چینج بن کر رہ گیا ہے جہاں ایک ایک لمحے قیمت میں رد و بدل ہونا کوئی انہونی نہیں ہوا کرتی۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن حکمرانوں کا عالم یہ ہے کہ وہ طفل تسلیاں دینے سے باز آکر نہیں دے رہے اور ہر مرتبہ مہنگائی کی کمی کے خواب آنکھوں میں سجانے سے نہیں چوکتے۔ جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اب عوام کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ وہ لفظ ’’نوٹس‘‘ یا کسی بھی مصیبت کے خلاف حکومتی ایکشن لیے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی غش کھا کھا کر گرنے لگتے ہیں اور نہایت کربناکی کے عالم میں یہ کہتے ہوئے بے ہوش ہوجاتے ہیں کہ
ترے وعدے پر کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانا مری آس ٹوٹ جائے