(پاکستان اسٹیل کیس)تمام صنعتیں بیٹھ گئیں‘ تماشا لگا ہوا ہے‘ چیف جسٹس۔نجکاری منصوبہ تحریری شکل میں پیش کرنیکا حکم

410

اسلام آباد (خبر ایجنسیاں) عدالت عظمیٰ نے اسٹیل ملز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ تمام صنعتیں بیٹھ گئی ہیں، تماشا لگا ہوا ہے، نجی اسٹیل ملز منافع میں ہیں تو سرکاری اسٹیل ملز کو کیا مسئلہ ہے؟عدالت نے منصوبے کو تحریری طور پر پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے نجکاری کمیشن اور وزارت صنعت و پیداوار سے 2 ہفتے میں اقدامات سے متعلق جواب طلب کر لیا۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو سیکرٹری نجکاری کمیشن حسن ناصر جامی پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ وفاقی وزرا بتائیں اسٹیل ملز کیساتھ کیا کرنا ہے؟ اس پر روزانہ کا خرچہ بلاوجہ ہو رہا ہے، سرکار کا پیسے بانٹنے کے لیے نہیں ہوتا؟، ملزبند پڑی ہے ملازمین کو پیسے کس بات کے دیں۔اسٹیل ملزملازمین کے وکیل نے جواب دیا کہ اگر ملزبند پڑی ہے تو اس کی ذمے دار انتظامیہ ہے۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری نجکاری حسن ناصر جامی سے استفسار کیا کہ کیوں نہ اسٹیل ملزکا روز کا خرچہ آپ سے نکلوائیں، آپ کی ناکامی ہے جو یہ خرچہ ہورہا ہے، آپ کو اس پیسے کے جانے کا کوئی درد نہیں ؟ کسی قابل آدمی کو آنے دیں آپ گھر جائیں، آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں، اتنا علم نہیں کہ اسٹیل ملزکا حجم کتنا ہے تو نجکاری کیا کریں گے، ایک سال میں یہ بھی معلوم نہیں کہ اسٹیل ملزکے کتنے پروجیکٹ چل رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام صنعتیں بیٹھ گئیں تماشا مچایا ہوا ہے، پی آئی اے، ہیوی مکینکل کمپلیکس، شپ یارڈ بند پڑے ہیں، کسی فیکٹری کا پہیہ نہیں چل رہا صرف پیسہ جا رہا ہے، پاکستان کے بحری جہاز چین میں بن رہے ہیں، اسٹیل ملزکو چلائیں۔جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ نجی اسٹیل ملز منافع میں ہیں تو سرکاری اسٹیل ملزکا کیا مسئلہ ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹیل ملزمیں بجلی، پانی، تنخواہیں سب کچھ ملزرہا ہے بس ملزبند ہے، کسی سرکاری افسر کو پرواہ نہیں سب گھروں میں سو رہے ہیں، اسٹیل ملزمیں 450 افسران کریں گے کیا؟ تمام افسران کو ایک لیٹر سے گھر بھجوائیں، اسٹیل ملزکے چیئرمین بیرون ملک گھوم رہے ہیں۔وکیل اسٹیل ملزشاہد باجوہ نے کہا کہ اسٹیل ملزکو صرف 40 افسران کی ضرورت ہے، چینی ماہرین کے مطابق اسٹیل ملزکو چلانے کے لیے 500 ملین ڈالر درکار ہوں گے، صرف 70 سے 80 فیصد ملازمین کو برقرار رکھ سکتے ہیں، قوم کے مفاد میں عدالت بقیہ 51 فیصد ملازمین نکالنے کی اجازت دے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کے پاس اتنا پیسہ ہی نہیں کہ ملزچلا سکے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نجکاری کرنے میں 550 سال لگ جائیں تو کیا فائدہ ہے۔وزیر نجکاری نے جواب دیا کہ واجبات ختم ہونے کے بعد ہی نجکاری کا عمل مکمل ہوگا۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے بتایا کہ بنیادی طور پر اسٹیل ملزکو لیز پر دیا جائے گا اور ملکیت حکومت کے پاس ہی رہے گی۔وفاقی وزیر نج کاری محمد میاں سومرونے عدالت میں کہا کہ اسٹیل ملزکے اثاثوں کی مالیت 100 ملین ڈالر ہے، ستمبر یا اکتوبر میں اس کی بولی لگنے کا امکان ہے، واجبات ادا کرکے اسٹیل ملزکو پرکشش بنائیں گے۔عدالت عظمیٰ نے اسٹیل ملزکے حوالے سے منصوبے کو تحریری طور پر پیش کرنے کا حکم دیا۔ نجکاری کمیشن اور وزارت صنعت و پیداوار سے 2ہفتے میں جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ آگاہ کیا جائے اسٹیل ملزکے حوالے سے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں، عدالت نے حکم دیا کہ ملازمین اور اسٹیل ملزکے وکلا بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں۔ عدالت نے اسٹیل ملز انتظامیہ اور ملازمین کے درمیان رشید اے رضوی کو ثالث مقرر کر دیا۔