مرد اور عورت جب شادی جیسے مقدس رشتے میں بندھ جاتے ہیں تو یہ رشتہ دونوں کو زندگی کے دکھ درد اور خوشیاں بانٹنے کا سہارا فراہم کرتا ہے۔ دونوں کو یہ رشتہ یا تو اپنی پسند سے یا والدین کے فیصلے کے ذریعہ عطا ہوتا ہے۔
آج کے دور میں ہم میں سے بیشتر ارینج میرج کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں کیوں کہ یہ ہماری رضامندی کو ضبط کرلیتا ہے اور ہمارے والدین کو ہماری طرف سے سنجیدہ فیصلے کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ نوجوان نسلوں کا خیال ہے کہ صرف محبتوں کی بنیاد پر ہی شادیاں کامیاب ہوسکتی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ارینج میرج کی بھی ایک سنہری اور خوبصورت اسلامی روایت چلی آرہی ہے۔
اسلام میں ہم مسلمانوں کو خوشحال زندگی گزارنے کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ اسلام ارینج میرج کی حوصلہ افزائی کرتا ہے بشرطیکہ لڑکا اور لڑکی خود بھی رضامند ہوں۔ حضور اکرمؐ نے اپنی امت کو مشورہ دیا کہ وہ ایسا مذہبی شراکت دار تلاش کریں جو آپ کو اللہ سبحان وتعالیٰ کے قریب لاسکے۔
پیغمبر اکرمؐ نے مرد کو شریکِ حیات منتخب کرنے کے حوالے سے خصوصی ہدایت دی ہے جس میں فرمایا گیا کہ،
“مرد شادی کیلئے عورت میں 4 چیزیں دیکھتا ہے: مال ، عزت و شرف ، خوبصورتی یا دین۔ (ان میں سے) عورت کے دین کو دیکھ کر شادی کرو۔ (بخاری و مسلم)
یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ مرد اور عورت دونوں پر ان کے والدین ، رشتہ داروں یا یہاں تک کہ معاشرے کے ذریعہ شادی کا کوئی دباؤ نہ ہو۔ ان کی رضامندی نجی طور پر لی جانی چاہئے۔ جبری شادیاں ہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث نئی نسل ارینج میرج کیخلاف ہورہی ہے۔
اسلام ہمیں اپنے شریکِ حیات کا انتخاب خود کرنے کا حق دیتا ہے لیکن نکاح سے قبل تعلقات پیدا کرنے کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اسلام نے جو راستہ تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ شادی سے پہلے مرد و عورت ایک دوسرے کو دیکھ لیں یا اُس کے بارے میں جان لیں، ایسا نہ ہو کہ شادی کے بعد شوہر کو بیوی میں یا بیوی کو شوہر میں کوئی نقص دکھائی دے اور فساد یا فتنہ پیدا ہو۔
ہمارے مذہب میں یہ جائز ہے کہ عورت اور مرد مناسب اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے مطلوبہ شریکِ حیات سے مل سکتے ہیں مگر اس ملاقات کا واحد مقصد شریک حیات کی تلاش کرنا ہو۔ ایسی ملاقات میں مرد اور عورت دونوں کے ساتھ کم از کم ایک فرد کا موجود ہونا لازمی ہے تاکہ شیطان کے شر سے دونوں محفوظ رہ سکیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ،
“تم میں سے کسی کو بھی عورت سے اکیلا نہیں ملنا چاہئے جب تک کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ نہ ہو” (بخاری و مسلم)
ایک اور جگہ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ
“تنہا مرد و عورت کے درمیان تیسرا فرد شیطان ہوتا ہے”۔
مزید برآں گفتگو کو اہم باتوں پر مبنی ہونا چاہیے بالکل کاروبار کی طرح یعنی فضول باتوں اور باتوں کو لمبا کرنے سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام اہتمام شدہ شادیوں (ارینج میرج) کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جب تک مرد و عورت باہم رضامند ہوں۔ ایسے لڑکا لڑکی جو ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے شادی کرنا چاہتے ہیں وہاں والدین کو سختی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اگر لڑکا لڑکی میں کوئی خلافِ شریعت اور دنیاوی نقص نہیں ہے تو والدین کو دونوں کی شادی کروادینی چاہیے اس سے پہلے کہ اولاد حرام کاری کی طرف مائل ہوجائے۔
معاشرے میں محبت کی شادی کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ اس کا بھی بہترین حل اسلام ہی دیتا ہے کہ جتنا جلد ہوسکے اولاد کی شادی کردی جائے یہ والدین کیلئے اور لڑکا لڑکی کیلئے بھی بہتر ہے۔