ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

404

ہم نے اپنی زندگی میں اب تک یہ دیکھا ہے کہ کسی ملک کی عدالت میں پاکستان کا کوئی کیس جائے یا کسی پاکستانی کا کیس جائے تو چاہے آپ کتنے ہی مضبوط دلائل دیں کروڑوں روپے کے وکیل کریں لیکن فیصلہ پاکستان یا پاکستانی کے خلاف ہی آتا ہے۔ آپ کوئی مسئلہ عالمی عدالت میں لے جائیں وہاں سے بھی فیصلہ پاکستان کے خلاف ہی آتا ہے۔ اس کے برخلاف کوئی ملک ہمارے خلاف کسی ملک کی عدالت یا عالمی عدالت میں جاتا ہے تو بھی فیصلہ اسی ملک کے حق میں ہوتا ہے یا ایسا گول مول فیصلہ ہوتا ہے جس کا جھکائو ہمارے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے ملک کے حق میں لگتا ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن کا کیس آپ کے سامنے ہے جس کو ہماری ایجنسیوں نے کافی عرصے کی نگرانی کے بعد رنگے ہاتھوں قوی ثبوت کے ساتھ پکڑا تھا۔ کلبھوشن کی رہائی کے حوالے سے بھارت عالمی عدالت میں چلا گیا۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر یہ معاملہ بالکل اس کے الٹ ہوتا کہ ہمارا کوئی جاسوس بھارت میں پکڑا جاتا اور اسے اگر سزائے موت سنائی جاتی اور ہم عالمی عدالت میں جاتے تو عالمی عدالت یہ کہہ کر کیس کی سماعت سے انکار کردیتی کہ یہ مسئلہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، 29جنوری جمعہ کے اخبارات میں فیصلہ آیا ہے کہ ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی کو برطانوی عدالت نے امریکا کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔ عارف نقوی کا ابراج گروپ ہی کا کے الیکٹرک ہے اور اہل کراچی کو کے الیکٹرک نے دل بھر کہ نچوڑا ہے اہل کراچی نے کے الیکٹرک سے بڑے دکھ اٹھائے ہیں اربوں روپے کے تانبے کے تار نکال کر سلور کے تار لگائے گئے۔ بقایاجات کے نام سے اضافی بل بھیج کر لوگوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالاہوسکتا ہے کسی غریب مظلوم کی بددعا لگ گئی ہو لیکن ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے عارف نقوی کے ساتھ لندن کی عدالت کے جج نے انصاف سے کام لینے کے بجائے تعصب کا مظاہرہ کیا ہے ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کورٹ کے سامنے عارف نقوی کے وکلا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عارف نقوی کو امریکا کی جیل میں ناروا سلوک کا سامنا ہوگا کیس کی سماعت کے دوران 6ماہر گواہوں نے وڈیو لنک کے ذریعے امریکا کی جیلوں کی حالت زار بیان کی وکلا کا کہنا تھا کہ عارف نقوی کو امریکی جیل بھیجنا انسانی حقوق سے سمجھوتا کرنے کے مترادف ہے۔
اسی طرح پاکستان کے ایک معروف بینکار جنہوں نے یو بی ایل بنایا تھا انہوں نے BCCI بنایا جس نے امریکا سمیت پورے یورپی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا، وہ یہودی سرمایہ کار جنہوں نے پوری دنیا کی معیشت کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے انہوں نے سوچا کہ ایک ترقی پزیر ملک کے چھوٹے سے بینکار اور وہ بھی مسلمان کی یہ ہمت کہ وہ ہمارے مقابلے پر آگیا پھر انہوں نے امریکا کی عدالت میں اس بینک کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ دائر کیا کہ یہ بینک ڈرگ مافیا کی بلیک منی کو وہائٹ کررہا ہے اس پر پابندی عائد کی جائے اس طرح اس بینک کا گلا گھونٹ دیا گیا اگر بی سی سی آئی قائم رہتا تو آج پاکستان کے بیش تر معاشی مسائل حل ہو جاتے۔
ڈاکٹر عافیہ کا کیس تو حال ہی کی بات جن کو تینوں بچوں سمیت 2003 میں پرویز مشرف کے دور میں کراچی سے اغوا کیا گیا ان کو افغانستان کے عقوبت خانوں میں رکھا گیا انہیں ہولناک قسم کی اذیتیں دی گئیں اور پھر ایک امریکی فوجی پر بندوق سے گولی چلانے مقدمہ چلایا گیا اور ایک امریکی عدالت انہیں 90سال کی سزا سنائی۔ عارف نقوی کے بارے میں خبر میں لکھا تھا کہ انہیں دھوکا دہی جعلسازی اور منی لانڈرنگ سمیت 16مختلف الزامات میں 300سال کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حال ہی میں پی آئی اے کے طیارے کو ملائیشیا میں روک لینے کا واقعہ رونما ہوا کہ یہ طیارہ پی آئی اے نے لیز پر حاصل کیا تھا کارونا کی وبا نے دنیا کہ ہر ملک کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا پی آئی اے کا بزنس بھی بہت متاثر ہوا پی آئی اے نے متعلقہ کمپنی کو اس صورتحال سے آگاہ کردیا تھا لیکن متعلقہ لیز کمپنی نے اس درخواست کو قبول نہیں کیا لندن کی عدالت نے مقدمہ دائر کردیا مقروض طیارہ کوجب ملائیشیا سے پاکستان مسافروں کو لے کر آنا تھا اس وقت برطانوی عدالت کے دبائو پر ملائیشیا کی عدالت نے بھی لیزنگ کمپنی کے حق اور اپنے مسلم برادر ملک کے خلاف فیصلہ دیا اور طیارے کو ائر پورٹ پر روک کر مسافروں سے خالی کرالیا۔
براڈشیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم نے ایک یک رکنی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا ہے اس لیے ہمیں اس کی تفصیل میں نہیں جانا ہے البتہ اپنے نکتہ کی وضاحت کے لیے کچھ مختصراً اس کی دلخراش داستان بھی سن لیں، پرویز مشرف جب بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے سیاست دانوں کی کرپشن اور قوم کے لوٹے ہوئے پیسوں کی واپسی کے لیے ایک ادارہ قومی احتساب بیورو national accountability bureau قائم کی اس نیب کے پہلے سربراہ جنرل امجد کو بنایا گیا معروف صحافی ہارون رشید کہتے ہیں کہ جنرل امجد ایماندار اور صاف ستھرے فرد ہیں لیکن وہ شاید مومنانہ صفت سے محروم ہیں کہ نبی اکرم ؐ کی ایک حدیث ہے کہ ’’مومن وہ ہے جو نہ دھوکا دیتا ہے نہ دھوکا کھاتا ہے‘‘۔ براڈ شیٹ کمپنی کولوریڈو کے تاجر جیری جیمز نے قائم کی تھی۔ اس سے نیب نے یہ معاہدہ کیا کہ وہ نوازشریف اور دیگر 200پاکستانیوں کی بیرون ملک میں دولت اور جائداد کا سراغ لگائیں گے جتنی رقم کا معلوم ہوگا اس کا بیس فی صد اس کمپنی کو معاوضہ ادا کیا جائے گا یہاں پر اس امر کی وضاحت سامنے نہیں آئی کہ یہ رقم کی معلومات نیب کو فراہم کریں گے اس پر اپنا کمیشن وصول کریں گے جبکہ اصولاً یہ ہونا چاہیے تھا جو رقم پاکستان کو ملے گی اس پر کمیشن دیا جائے گا، اس میں ایک اور عجیب شرط رکھی گئی کہ جو رقم نیب اپنے ذرئع سے معلوم کرے گی اس پر بھی کمپنی کو بیس فی صد کمیشن دیا جائے گا۔ 2003 تک اس حوالے سے جب کوئی پیش رفت نہیں ہوئی نیب نے یہ معاہدہ ختم کردیا براڈ شیٹ کمپنی مالی بحران کی وجہ سے تحلیل ہو گئی، 2005 میں کچھ مالی صورتحال بہتر ہوئی تو یہ کمپنی بحال ہو گئی۔ جن دنوں براڈشیٹ کو مالی مسائل کا سامنا تھا مسٹر جیمز نے کولوریڈو ہی میں اسی نام براڈ شیٹ ایل ایل سی) کے ایک الگ کمپنی قائم کرلی۔ 2008 میں یہ کمپنی جو نیب اور ریاست پاکستان کے ساتھ اصل معاہدے کا فریق نہیں ہے ان دعوں کے ساتھ بات چیت کے لیے سامنے آئی جو اصلی براڈ شیٹ کے پاکستان سے متعلق تھے اور ایک بار پانچ ملین ڈالر کی ادائیگی کی گئی تاہم قانون کی قابل اطلاق دفعات کے مطابق پانچ ملین کی یہ ادائیگی جو غلط براڈ شیٹ کو کی گئی اصل مسئلے کا حل ثابت نہ ہو سکی۔ یہ حقائق اور فریقین کے مابین قانونی جھگڑے کے وہ معاملات ہیں جن کے نتیجے میں براڈ شیٹ ایل ایل سی اور ریاست پاکستان کے مابین ثالثی کی کارروائی کی گئی۔ ثالثی کی اس کارروائی یہ بات سامنے آتی ہے کہ نیب نے متعلقہ معاہدے کے تحت 2ادائیگیاں کی تھیں 1.5ملین امریکی ڈالر کی ایک ادائیگی جیری جیمز کے اکائونٹ کو کی گئی جس نے جعلی براڈشیٹ قائم کر رکھی تھی۔
اب دیکھیے پاکستان کے ساتھ کیا زیادتی ہوتی ہے۔ ثالثی عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک غلط کمپنی کو یہ ادائیگی ہونا کوئی سادہ غلطی نہیں تھی اور یہ کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا اقدام ہے جو اصلی براڈشیٹ کو مالی طور پر دھوکا دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا، اس کے بعد 2011 میں مسٹر جیمز نے پیرس میں خود کشی کرلی۔ ان حالات میں نومبر 2018 میں لندن کورٹ آف انٹر نیشنل آر بٹریشن (ایل سی آئی اے) نے نیب کے خلاف 17ملین ڈالر جرمانے کا فیصلہ سنا دیا بعد ازاں ایوارڈ میں مزید 3ملین ڈالر مقدمے کی لاگت کی مد میں اضافہ کردیا۔ چونکہ نیب نے 20ملین ڈالر کی رقم ادا نہیں کی چنانچہ اس رقم پر سود جمع ہوتا رہا جو دسمبر 2020 تک مجموعی طور پر 28.7ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔
جب اس معاملے کی برطانوی ہائیکورٹ میں اپیل کی گئی تو مذکورہ عدالت نے بھی براڈ شیٹ کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اسے کہتے ہیں ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔