نجم الدین اربکان اسلامی اتحاد پر ریقین رکھتے تھے ‘زندگی مال وجان سے جہاد کرتے گزاردی

985

کراچی (رپورٹ: منیب حسین) ترکی کے سیاسی منظر پر استاذ نجم الدین اربکان اسلام کی نشأۃثانیہ کا تابندہ ستارہ ہیں۔ جنرل جمال گرسل کے ہاتھوں ترکی کے امام انقلاب وزیر اعظم عدنان میندریس کی شہادت نے اسلام پسندوں کے درمیان قیادت کا جو خلا پیدا کیا تھا، استاذ اربکان نے اسے احسن انداز میں پُر کیا اور ملک میں اسلامی اقداروتعلیمات پر عمل کی آزادی کے لیے دہائیوں سے جاری جدوجہد کا علم تھاما۔ وہ ایک سائنسدان تھے، لیکن انہوں نے اپنی زندگی غلبہ دین کے لیے وقف کرتے ہوئے سیاسی میدان کا انتخاب کیا اور 1970ء میں ’’ملی نظام پارٹی‘‘ تشکیل دی، جو سقوطِ خلافت کے بعد سیکولر آئین کے حامل اس ملک میں اسلامی شناخت کی حامل پہلی سیاسی جماعت تھی۔ ملک پر مسلط آمروں کو اس سے اتنا خوف آیا کہ چند ماہ بعد ہی اس پر پابندی لگا دی گئی۔ آئندہ سال انہوں نے ’’ملی حل پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی اور 1973ء کے انتخابات میں 48نشستیں حاصل کرکے سیکولر قابضین کے ہوش اڑا دیے۔ اس کے نتیجے میں استاذ اربکان نائب وزیراعظم بھی بنے، تاہم چند برس بعد ہی اس جماعت کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا۔ پھر انہوں نے 1983ء میں ’’رفاہ پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی اور 1995ء میں اس جماعت نے اتحادی حکومت قائم کی۔ یوں عدنان میندریس کے بعد ترکی کو ایک اور اسلام پسند وزیراعظم میسر آیا، تاہم اس حکومت کا انجام بھی میندریس حکومت کی طرح ہوا اور ایک سال بعد ہی اسے چلتا کیا گیا۔ استاذ اربکان پر پابندی عاید کردی گئی، لیکن انہوں نے سرتسلیم خم نہ کیا اور ’’فضیلت پارٹی‘‘ کے نام سے نئی جماعت بنوائی، جو 2 سال بعد ہی پابندیوں کا شکار ہوگئی۔ اس کے بعد انہوں نے سعادت پارٹی تشکیل دی، جو تاحال ترکی کے سیاسی منظر پر موجود ہے۔ غرض استاذ اربکان کی ساری زندگی ملک میں شعائر اسلام کی آزادی اور دین کی سربلندی کے لیے وقف رہی۔ انہوں نے ملک میں اسلام پسندی اور آزادی کی جو بنیاد ڈالی، اسی نے عوام کو 2016ء کی فوجی بغاوت ناکام بنانے کا حوصلہ اور طاقت فراہم کی۔ ترکی میں اسلام کی موجودہ صورت حال استاذ اربکان ہی کی مرہونِ منت ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ترکی میں اب ان کا کوئی روحانی جانشین موجود ہے؟ اس حوالے سے دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں پر نظر رکھنے والے تُرک سیاسی تجزیہ کار انیس انگن سے گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی دنیا ترکی کو اسلام کے آخری قلعے اور بیت خلافت کے طور پر دیکھتا ہے۔ استاذ اربکان نے 1969ء سے اب تک جتنی بھی سیاسی جماعتیں تشکیل دیں، ان کے سیاسی مکتب فکر کے لیے یہی سوچ مشعل راہ بنی۔ ان کی آخری تشکیل کردہ جماعت سعادت پارٹی ہے، تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ جماعت داخلی انتشار کے باعث خاص طور پر استاذ اربکان کے بعد بہت پیچھے چلی گئی ہے۔ استاذ اربکان کا یہ یقین تھا کہ اسلام کا مکمل نفاذ ضروری ہے، جو اس اُمت کی سربلندی اور عروج کے لیے درکار ہر عنصر کی فراہمی یقینی بناتا ہے۔ ان کے 3بنیادی نکات تھے۔ پہلا سوچ کی آزادی، کیوں کہ اسلام ہر قسم کی فکر کا منبع ہے اور اسی سے ہم اپنی سیاست وقوانین کشید کرتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو اسلام کی سربلندی کے لیے تیار کرتے ہیں۔ دوسرا اقتصادی آزادی، وہ اس لیے کہ ہماری قوت کا انحصار ہمارے پاس موجود ہلکی بھاری صنعتوں کو ترقی دینے کے امکانات اور مسلم بلاک کے درمیان رابطے کا عمل مضبوط ہونے پر ہے، کیوں کہ مسلم بلاک کے پاس بہ کفایت خام مال اور زرخیز زمین ہے، اور صنعتی ترقی ہمارے ذہین افراد کو مغرب کی جانب ہجرت سے روک سکتی ہے۔ تیسرا اسلامی اتحاد، جس کی پہلی اینٹ 8 ممالک کا اتحاد تھا۔ یہ تمام عالم اسلام پر مشتمل وسیع تر اتحاد کے قیام کی جانب پہلا قدم تھا، جو تمام مغربی ودیگر اتحادوں کا متبادل ہے۔ استاذ اربکان نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنا رخ تبدیل نہیں کیا اور ہمیشہ مسلمانوں کی خدمت میں کوشاں رہے۔ ان کے دل میں دولت جمع کرنے سمیت کسی قسم کی کوئی لالچ نہیں تھی۔ انہیں مال جمع کرنا ہوتا تو مغربی ممالک ہی میں رہتے اور دنیا کے دیگر محققین سے کہیں زیادہ دولت کمالیتے، لیکن انہوں نے اپنے جان ومال کو اسلام کے لیے وقف کرتے ہوئے ترکی واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا اور ترکی کو صنعتی ترقی دینے میں لگ گئے۔ انہوں نے اس کا کوئی عوض نہیں مانگا، بلکہ وفات سے کچھ عرصے قبل کسی نے پوچھا کہ آپ خود کو کن الفاظ میں یاد رکھا جانا پسند کرتے ہیں؟تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ لوگ مجھے اپنے جان ومال سے جہاد کرنے والے کے طور پر یاد کریں۔ ان کا جانشین کوئی نظر نہیں آتا، لیکن مستقبل میں جس نے بھی اللہ کے لیے دنیا کو چھوڑا، امت کی سربلندی کے لیے کھڑا ہوا، علم وعمل کے ساتھ اس کی قیادت کی، مغرب کی تعلیمات، طرزِ سیاست وفکری غلامی کو مسترد کیا اور اسلامی معیشت کے لیے سرگرم ہوا، وہ مجاہد اربکان کے راستے پر ہوگا۔ دوسری جانب سعادت پارٹی کے موجودہ نائب صدر اور ناظم امورِ خارجہ مصطفی کایا نے جسارت سے خصوصی گفتگو میں مختلف جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ جانتے ہیں کہ انصاف وترقی (اے کے) پارٹی کی قیادت خاص طور پر صدر رجب طیب اردوان ترکی میں ہماری تحریک کے سیاسی اتحاد ’’قومی نظریہ‘‘ کا حصہ تھے۔ 2001ء میں انہوں نے اپنی مختلف سوچ کے باعث اس اتحاد سے راہیں جدا کرکے انصاف وترقی پارٹی کی بنیاد رکھی اور 2002ء کے انتخابی معرکے میں ابھر کر سامنے آئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے بہت سے اچھے کام کیے، جیسے حجاب کی اجازت، مذہبی آزادی، دینی مدارس کا قیام اور عوامی خدمات کے شعبے کی ترقی۔ ان اقدامات نے عوام میں ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ تاہم انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی مغرب کے زیراثر بنائی۔ معاشی میدان میں انہوں نے سود پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کو اپنایا اور بیرونی قرضے لیے، اور انہیں غیرضروری شعبوں میں خرچ کرکے ملک میں اقتصادی بحران پیدا کیے۔ غرض ایک طویل فہرست ہے۔ اگرچہ انصاف وترقی پارٹی خود کو اسلام پسند بنا کر پیش کرنے میں کامیاب رہی ہے اور اس نے راسخ فی الدین عوام کے لیے بہت سے اقدامات بھی کیے ہیں، جو انہیں برسراقتدار رہنے میں معاون ہیں، تاہم سعادت پارٹی عوام کے اس حقیقی نکتہ نظر کو پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے، جس کے حوالے سے لوگوں کو گمراہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک اربکان کی جانشینی کی بات ہے، تو سعادت پارٹی میں اب بھی کئی متحرک رہنما موجود ہیں، تاہم وہ استاذ اربکان مرحوم کی طرح نہیں اور ان جیسا رہنما اب ملنا بھی ممکن نہیں۔ سعادت پارٹی کی موجودہ قیادت باصلاحیت ومتحرک ہے، جیسے موجودہ سربراہ تمل کرم اللہ اولو جو انتہائی اثرورسوخ کے حامل ہیں۔ وہ ملک کے سب سے باشعور اور قابل احترام رہنما ہیں، اور ملک کے تمام قائدین پر دھاک رکھتے ہیں۔ سعادت پارٹی کے ووٹرز کی تعداد اگرچہ کم ہے، لیکن معاشرے اور سیاست میں اس کا اثرورسوخ بہت زیادہ ہے، اور ان شاء اللہ پھر طاقت میں آئیں گے۔