اسٹیل مل کی تباہی کی ذمے دار انتظامیہ ہے‘ چیف جسٹس۔ 3وفاقی وزراطلب

329

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ اسٹیل مل کی تباہی کی ذمے دار انتظامیہ ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ا سٹیل مل کے ملازمین سے متعلق کیس میں وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہار اور وزیر نجکاری محمدمیاں سومرو کو طلب کرلیا۔ جمعرات کو عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اسٹیل مل ملازمین کی ترقیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔عدالت نے وزیر منصوبہ بندی، وزیر نجکاری اور وزیر صنعت و پیدوار کو طلب کیا تاہم وہ پیش نہ ہوسکے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اسٹیل مل کی حالت زار کا ذمے دار انتظامیہ کو قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کیا حکومت نے اسٹیل مل انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی؟دوران سماعت چیف جسٹس نے پاکستان ا سٹیل مل انتظامیہ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ مل بند پڑی ہے تو انتظامیہ کیوں رکھی ہوئی ہے؟ بند اسٹیل مل کو کسی ایم ڈی یا چیف ایگزیکٹو کی ضرورت نہیں، اسٹیل مل انتظامیہ اور افسران قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملازمین سے پہلے تمام افسران کو اسٹیل مل سے نکالیں۔ اس پر وکیل پاکستان اسٹیل مل نے کہا کہ تمام انتظامیہ تبدیل کی جاچکی ہے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انتظامیہ تبدیل کرنے سے کیا مل فعال ہوجائے گی؟ پاکستان کے علاوہ پوری دنیا کی اسٹیل ملز منافع میں ہیں، اسٹیل مل میں اب بھی ضرورت سے زیادہ عملہ موجود ہے۔اس پر وکیل نے کہا کہ 1800 سے زاید افسران تھے 439رہ گئے ہیں ۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مل ہی بند پڑی ہے تو 439 افسران کیا کر رہے ہیں؟ اس پر وکیل نے پھر بتایا کہ اسٹیل مل کا یومیہ خرچ 2 کروڑ روپے تھا جو اب ایک کروڑ روپے رہ گیا۔انہوں نے کہا کہ اب تک 49 فیصد ملازمین نکال چکے ہیں مزید کے لیے عدالتی اجازت درکار ہے، لیبر کورٹ کی اجازت کے بغیر مزید ملازمین نہیں نکال سکتے۔جس پر چیف جسٹس گلزار احمدنے کہا کہ اجازت براہ راست عدالت عظمیٰ دے گی لیکن آپ پہلے افسران کو نکالیں ۔ عدالتی ریمارکس پر وکیل نے کہاکہ ا سٹیل مل ملازمین میں اسپتال اوراسکولوں کا عمل بھی شامل ہے ۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے بیوروکریسی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں کوئی وفاقی سیکرٹری کام نہیں کر رہا، تمام سیکرٹریز صرف لیٹر بازی ہی کر رہے جو کلرکوں کا کام ہے، سمجھ نہیں آتا حکومت نے سیکرٹریز کو رکھا ہی کیوں ہوا ہے ؟دوران سماعت چیف جسٹس نے اسٹیل مل کو بند کرنے کے حکم دینے کا عندیہ بھی دیا اور منصوبہ بندی، نجکاری کے سیکرٹریز کو بھی طلب کر لیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج سے کسی ملازم کو ادائیگی نہیں ہوگی، جب مل نفع ہی نہیں دیتی تو ادائیگیاں کس بات کی، ملازمین کو بیٹھنے کی تنخواہ تو نہیں ملے گی۔اس موقع پر ملازمین کے وکیل نے کہا کہ اسٹیل مل ملازمین کام کرنے کو تیار ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹیل مل میں بعض لوگوں نے بھرتی سے ریٹائرمنٹ تک ایک روز بھی کام نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مل کا 212 ارب روپے کا قرض کون ادا کرے گا، انتظامیہ اور ملازمین کو ادارے کا احساس ہی نہیں، مفت کی دکان سے جس کا جی چاہتا ہے لے جاتا ہے۔علاوہ ازیں عدالت کے طلب کرنے پر سیکرٹری صنعت و پیداوار عدالت میں پیش ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ اسٹیل مل کی نجکاری ایڈوانس مرحلے میں داخل ہو چکی، رواں سال اگست میں نجکاری کا عمل ہوجائے گا۔عدالت نے کہا کہ اسٹیل مل کے معاملے پر وزرا اور متعلقہ سیکرٹریز کو سننا چاہتے ہیں، 9فروری کو وفاقی وزرا کو سن کر ہی فیصلہ کریں گے۔