ہبہ اور وصیت

1205

سوال: ایک صاحب اپنی ملکیت کا ایک تہائی حصہ وصیت کرچکے ہیں۔ ان کے کئی لڑکے ہیں۔ ایک لڑکا ان کا بڑا خیال رکھتاہے، عرصہ دس سال سے ان کی ہر طرح سے خدمت کر رہا ہے، جبکہ دیگر لڑکے ان کا اتنا خیال نہیں رکھتے۔ وہ اپنے اْس لڑکے کو، جو ان کی خدمت کرتا ہے، اپنی ملکیت کا مزید کچھ حصہ ہبہ کرناچاہتے ہیں۔ چونکہ ہبہ کی رجسٹریشن فیس بہت زیادہ لگ جاتی ہے جبکہ وصیت کی رجسٹری کرانے میں معمولی خرچ آتا ہے۔ جب تک ہبہ نامہ رجسٹرڈ نہ ہو، عدالت اسے تسلیم نہیں کرتی۔ ایسی صورت میں کیا ہبہ کی جگہ وصیت کی جاسکتی ہے۔
وہ صاحب چاہتے ہیں کہ اپنے بڑے لڑکے کو جو کچھ دینا چاہتے ہیں، اس پر اسے قبضہ دے دیں اور اس کے حق میں ہبہ نامہ بھی لکھ دیں۔ لیکن پختگی کے لیے اسے بہ شکل وصیت رجسٹرڈ کروا دیں۔ کیا ان کا ایسا کرنا صحیح ہے؟
جواب: کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کا ایک تہائی حصہ وصیت کرسکتا ہے، لیکن یہ وصیت کسی وارث کے حق میں جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا صریح فرمان ہے: ’’کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے‘‘۔ (ترمذی، نسائی)
ہبہ اور وصیت میں فرق ہے۔ ہبہ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زندگی میں دوسرے شخص کو اپنی ملکیت کی کوئی چیز بطور تحفہ دے دے اور اسے مالک بنا دے۔ جبکہ وصیت میں وہ چیز، دینے والے کی زندگی میں اس کی ملکیت اور تصرف میں رہتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد، وہ شخص جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے، اس چیز کا مالک بنتا ہے۔ محض اس وجہ سے کہ ہبہ کی رجسٹریشن فیس زیادہ ہے اور وصیت کی کم، اس لیے ہبہ کو بہ شکل وصیت رجسٹرڈ کرانا صحیح نہیں ہے۔
کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کی چیزوں میں سے جو بھی چاہے دوسرے کو ہبہ کرسکتا ہے، لیکن اس معاملے میں اپنی اولاد کے درمیان تفریق کرنا، کسی کو نوازنا اور دوسروں کو محروم رکھنا درست نہیں ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری: 2586، مسلم: 1623)
کسی شخص کی اولاد میں سے بعض معاشی اعتبار سے مضبوط اور بعض کمزور ہوسکتے ہیں۔ وہ کمزور اولاد کی مدد کرسکتا اور اسے سہارا دے سکتا ہے، لیکن یہ کام اگر وہ اپنے دوسرے لڑکوں کو اعتماد میں لے کر کرے تو انھیں شکایت نہیں ہوگی اور باہم اعتماد، محبت اور ہمدردی کی فضا قائم رہے گی۔
والدین کی خدمت کرنا، ان کا خیال رکھنا اور ان کی تمام ضرورتیں پوری کرنا اولاد پر فرض ہے۔ جو اس میں کوتاہی کرتا ہے وہ گنہگار ہوگا اور جو یہ تمام کام خوش دلی سے بڑھ چڑھ کر انجام دیتا ہے وہ بارگاہ الٰہی میں اجر وانعام کا مستحق ہوگا۔ والدین کو چاہیے کہ وہ محض اس بنیاد پر کہ ان کی اولادوں میں سے کون ان کی زیادہ خدمت کرتا ہے اور کون انھیں نظرانداز کرتا ہے، ان کے درمیان تفریق نہ کریں اور سب کے ساتھ برابر کا سلوک کریں۔