پانچ فروری کا پیغام… یک جہتی کشمیر

823

آج مجھے وہ سب لوگ، شہداء یاد آرہے ہیں، جن کے خون کی روشنی سے کشمیر میں تحریک آزادی چل رہی ہے، مجھے تمام شہداء یاد آرہے ہیں جنہوں نے وہاں قبرستان آباد کیے ہیں، بھارت نے ہر قسم کا ہتھیار استعمال کیا کہ کشمیری تحریک ختم کردیں مگر کشمیری مائیں اپنے لال نچھاور کر رہی ہیں، ہمیں ان کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا بلکہ جلا بخشنی ہے، جس کے لیے ایک کردار چاہیے، بہادری اور سچائی چاہیے، جہاد سے پیار چاہیے، شہادت کی آرزو چاہیے، تب یہ منزل مل سکے گی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کے انضمام کا فیصلہ جہاں بھارت اور اس خطے کی تاریخ کا ایک سیاہ فیصلہ ہے وہیں یہ انتہائی دورس اثرات کا بھی حامل ہے۔ اس فیصلے کے ذریعے بھارت نے خود کو ایک مطلق العنان ریاست ثابت کیا ہے جو کسی قاعدے قانون کو خاطر میں نہیں لاتی۔ مقبوضہ وادی کشمیر کا انضمام بھارت کی نوآبادیاتی سوچ اور استعماری عزائم کا عکاس ہے۔ عالمی برادری کا یہ قانونی اور اخلاقی فرض ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے بھارت کے ان جارحانہ اقدامات کو روکے جن کی وجہ سے ایک طرف لاکھوں کشمیریوں کی زندگیاں اور دوسری جانب اس پورے خطے کا امن و امان دائو پر لگ چکا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے علاقائی و داخلی سطح پر بہت سے چیلنجز درپیش ہیں جن میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ہمارا دیرینہ اُصولی موقف ہے کہ اہلِ کشمیر کو ان کا پیدائشی اور ناقابل تنسیخ حق ِ استصواب ِ رائے اور اپنے مقدر کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے آج پچاس سال کے بعد میرے سامنے رہنمائی کے لیے وہ اصول موجود ہیں جو 1965ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپنے خطاب کے دوران پیش کیے تھے یہ بھی المیہ ہے کہ کشمیر کے لیے کسی حکومت نے وہ کام نہیں کیا جس کی ضرورت تھی ہر پاکستانی کشمیر کے ساتھ تہذیب و ثقافت، جغرافیہ اور تاریخ کے رشتے میں بندھا ہوا ہے بار بار کہتے ہیں کہ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی تحریکِ آزادی کی سفارتی، قانونی اور اخلاقی مدد جاری رکھے گا امن کے لیے مذاکرات کا عزم اپنی جگہ مُسلّم لیکن یہ امن ہمارے کشمیری بہن بھائیوں کی آزادی اور خود مختاری کی قیمت پر ہرگز قابل ِ قبول نہیں اس وقت صورتحال انتہائی پریشان کن ہے کہ ہماری موجودہ حکومت کو اس آگ کی حدّت ابھی تک محسوس نہیں ہوئی جو بھارت نے5 اگست 2019ء کو بھڑکائی تھی۔
کشمیر کے معاملے پر یہ اعتماد میرے، اندرون و بیرونِ ملک، جمہوری اقدار اور آزادی پر ایمان کی دین ہے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہماری پارلیمان طے کرے اور قومی اہمیت کے تمام معاملات اسی فورم پر زیر بحث لائے جائیں تاکہ دنیا کے سامنے پوری قوم کا اجتماعی فیصلہ رکھا جاسکے۔ آج مجھے یہ دیکھ کر انتہائی دُکھ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نہ صرف پارلیمان کو نظر انداز کر رہی ہے بلکہ کشمیر جیسے اہم ترین مسئلے پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں بھی یکسر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ آج ہمیں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے نریندرا مودی کے جارحانہ اقدامات کا بھرپور اور موثر جواب دینے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے عالمی قوانین کو پامال کرنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کو روکنا عالمی برادری کی ذمے داری ہے اور یہ اقوامِ متحدہ کی’’کریڈیبلٹی‘‘ کا سوال ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ہماری حکومت نے جس نااہلی اور غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہماری حکومت کو اس مسئلے کی سنگینی کا یکسر احساس نہیں ہے۔ حکومت کے اس غیر سنجیدہ رویے نااہلی اور غیر جمہوری سوچ کے باوجود کشمیری عوام کے اہلِ پاکستان پر اعتماد کو مجروح نہیں ہونے دیں گے سیاست اور مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیر کے معاملے پر حکومت کا مکمل ساتھ دینا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ قومی اور ملکی معاملات پر کسی قسم کی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں ہونی چاہیے کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ اور اہل کشمیر کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کسی طور بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ یہ پوری عالمی برادری، انسانی اقدار اور آزادی پر ایمان اور ان کے تحفظ پر یقین رکھنے والے ہر فرد کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ تاریخ اہلِ کشمیر کے ساتھ کھڑی ہے اور پاکستانی عوام اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں تا آنکہ وہ اپنی منزلِ آزادی تک نہیں پہنچ جاتے جو ان کا مقدر ہے۔